تعلیم و تدریس کیا ہے؟

تعلیم کیا ہے پر بات کرنے سے قبل ہمیں علم اور تعلیم کے فرق کو سمجھنا ہوگا، علم سے مراد کسی شے کے فہم کے لیے جاتے ہیں، فلسفے میں علم کسی موضوع کے متعلق مربوط مکمل اور صحیح واقفیت کا نام علم ہے، جس طرح اینٹوں کے ڈھیر کو عمارت کا نام نہیں دیا جاسکتا‘ اسی طرح غیر مربوط معلومات کو علم قرار نہیں دیا جاسکتا۔

تعلیم سے مراد عام طور پر بچے کی فطری صلاحیتوں کو ابھارنا اور ان سے کام لینا سمجھے جاتے ہیں لیکن اصطلاح میں تعلیم وہ شعوری اور سماجی سرگرمیاں ہیں جو نو عمروں کو سماجی، ثقافتی، تمدنی، اخلاقی اور معاشی زندگی کا اہل بنانے کے لیے ارادتاً انجام دی جائیں۔

نظام تعلیم کوئی بھی ہو وہ عموماً طالب علم، استاد اور مطالعاتی مواد کے گرد گھومتا ہے۔ مطالعاتی مواد سے مراد وہ درسی کتب یا مواد ہے جو استاد طالب علم کو پڑھاتا ہے۔ تعلیمی نظام میں ایک اصطلاح ’’نصاب‘‘ کی استعمال کی جاتی ہے جس کے معنی ایک مقررہ تدریسی مواد کے لیے جاتے ہیں‘ اس میں وہ سرگرمیاں بھی شامل ہوتی ہیں جو بچوں کے مشاہدات اور تجربات میں اضافے کا باعث بنیں۔ اس میں اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ وہ اپنے مقررہ وقت میں مکمل ہوں۔ تعلیمی نظام میں ایک اصطلاح ’’کورس‘‘ کی بھی استعمال کی جاتی ہے۔

کورس کو پورے تعلیمی پروگرام میں مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ اسے تعلیمی مقاصد کے حصول کا تفصیلی منصوبہ یا پروگرام کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ ایک اصطلاح سلیبس کی بھی ہے اسے نصاب میں ایک جز کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔

تعلیمی نظام میں علم کے مرکز کو موضوع (سبجیکٹ) کا نام دیا جاتا ہے ایک اصطلاح ’’سبق‘‘ بھی ہے سبق سے مراد عمومی طور پر تدریسی مواد کے ہی سمجھے جاتے ہیں لیکن تعلیمی اصطلاح میں سبق موضوع یا کسی موضوع کا کوئی مکمل اور بامعنی جز ہے جو ایک نشست میں مقررہ وقت کے اندر طلبا کو سمجھایا جاتا ہے۔

ایسا عمل جس کے ذریعے طلبا میں تعلیم کے عمل کو انجام دیا جائے اسے تدریس (ٹیچنگ) کا نام دیا جاتا ہے۔ہمارے تعلیمی نظام میں اس کے کئی طریقے رائج ہیں مثلاً ایک ایسا طریقہ جس میں یک طرفہ معلومات استاد کی جانب سے دی جاتی ہیں طلبا خاموشی سے سنتے ہیں، معلم نہایت ترتیب اور منطقی انداز میں نفس مضمون پیش کرتا ہے، یہ طریقہ تقریری طریقہ تدریس کہلاتا ہے۔

ایسا طریقہ تدریس جس میں طلبا کے سامنے عملی تجربہ کرکے تعلیم کے عمل کو انجام دیا جائے اسے مظاہراتی طریقہ تدریس کہتے ہیں‘ اس طریقہ کار کو عموماً سائنس کے مضمون میں استعمال کیا جاتا ہے۔ایسا طریقہ تدریس جس میں معلومات کو مسلسل دہرایا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ طلبا کو اچھی طرح ذہن نشین ہو جائے یہ مشقی طریقہ تدریس کہلاتا ہے۔

ایسا طریقہ تدریس جس کے تحت مختلف ذرایع سے حالات و واقعات کے بارے میں پہلے مختلف شواہد یا درست معلومات اکٹھی کی جاتی ہیں پھر ان معلومات کی بنیاد پر مقدمات بنا کر حقائق کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے ایسے طریقہ تدریس کوانکوائری طریقہ تدریس کا نام دیا جاتا ہے۔ کردار نگاری یا مکالمہ نگاری کے ذریعے تدریس کا عمل انجام دیا جائے تو ایسے طریقہ تدریس کو رول پلے انگ کا نام دیا جاتا ہے۔

تدریس کے عمل کی ناکامی کے اسباب میں جابرانہ ماحول، ضرورت سے زیادہ بتانا اور نفس مضمون کو مشکل بنا کر پیش کرنا شامل ہیں۔ اس لیے جہاں تدریس کے مختلف طریقے ہیں وہاں تدریس کے کچھ اصول بھی ہیں جن کا جاننا ایک استاد کے لیے بہت ضروری ہے۔ ایک استاد کے لیے ضروری ہے کہ جو سبق پڑھانے جا رہے ہیں پہلے بچوں کو اس کی ضرورت اور افادیت بخوبی ذہن نشین کرا دی جائے۔

بچوں کو وہی کچھ پڑھایا جائے جو ان کی فطرت اور صلاحیت کے مطابق ہو اور مقصدیت کا پہلا بھی اس میں شامل ہو، پڑھانے کا عمل آسان اور عام فہم ہو، زبان صاف اور شگفتہ ہو تاکہ بچوں کو آسانی سے سمجھ میں آسکے۔ابتدا میں بچوں کی نظر اجزا اور ان کی تفصیلات پر نہیں جاتی بلکہ وہ پوری چیز پر مجموعی نظر ڈالتے ہیں، اس لیے جو کچھ پڑھایا جائے اسے مناسب اجزا میں تقسیم کرکے پڑھایا جائے۔ یہ تقسیم اس انداز سے ہو کہ ہر جز اپنے سے پہلے اور بعد کے اجزا سے فطری طور پر مربوط بھی رہے، پھر رفتہ رفتہ ایک ایک جز کی وضاحت کرکے پوری چیز کو واضح اور متعین تصور قائم کرکے کل سے ان کے ربط کو ملایا جائے۔

بچے پہلے سے جو کچھ جانتے ہیں اس کے سہارے انھیں نئی باتیں بتائی یا سمجھائی جائیں یعنی جو نئی معلومات ان کی سابقہ معلومات، ان کے تجربات، مشاہدات، سماجی اور فطری ماحول سے مربوط کرکے فراہم کی جائیں، بچوں کے تجربات محدود اور مشاہدات ناقص ہوتے ہیں۔ اس لیے مختلف چیزوں کے بارے میں ان کے تصورات غیر معین اور غیر واضح ہوتے ہیں‘ اس لیے ان کو واضح کرنے کے لیے تصاویر، نقشہ جات، تشریح اور مثالوں کی مدد سے غیر معین اور غیر واضح تصورات کو معین اور واضح کرنے کا عمل انجام دیا جائے۔

تدریس کے عمل میں سوالات کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ سوالات نہ صرف تدریس کی سرگرمیوں کو تقویت دیتے ہیں بلکہ تدریس کے عمل کو بھی موثر بناتے ہیں اور طلبا کی ذہنی نشوونما کا ایک وسیلہ بھی ہوتے ہیں۔ اس سے طلبا میں نہ صرف تجسس کا عنصر پیدا ہوتا ہے بلکہ یہ سوالات آگے جا کر ان کی توجہ اور دلچسپی کا باعث بھی بنتے ہیں۔ سوالات کے ضمن میں یہ ضروری ہے کہ سوالات کا تعین سبق اور موضوع کی مناسبت سے ہونا چاہیے۔ سوالات کے لیے ضروری ہے کہ وہ عام فہم ہونے کے ساتھ واضح ہوں اور ان میں کوئی ابہام نہ ہو۔

سوالات چھوٹے اور مختصر ہوں اور سوالات طلبا کی ذہنی صلاحیت کو سامنے رکھ کر کیے جائیں۔ زیادہ سوالات کی صورت میں جو بھی سوالات کیے جائیں وہ آپس میں اتنے مربوط ہوں کہ ایک دوسرے کا لازمی جز معلوم ہوں۔ سوالات پوری جماعت سے کیا جائے البتہ جواب ایک ہی بچے سے معلوم کیا جائے۔ سوالات کرنے کا لہجہ خوش گوار اور ہمدردانہ ہونا چاہیے تاکہ بچہ خود اعتمادی کے ساتھ جواب دینے پر آمادہ ہوسکے۔طلبا کو سوچنے کا موقعہ دیا جائے اگر غلط جواب ملتا ہے تو اس کی ملامت نہ کی جائے نرم اور شفیق لہجہ اختیار کیا جائے جواب نہ ملنے پر مکمل اور واضح جواب دیا جائے۔

جان دار اور اس کے ارد گرد کی آب و ہوا اور ماحول کے درمیان بسنے والے رابطے اور تعلق کا مطالعہ ماحولیات Ecology کہلاتا ہے۔ یہ علم جغرافیہ کی اصطلاح ہے لیکن جب ہم لفظ ماحول استعمال کرتے ہیں تو یہ ایک سماجی اصطلاح ہے جس کے معنی وہ خارجی شرائط اور عوامل جو بچے کی نشوونما پر اثرانداز ہوتے ہیں یہاں لفظ نشوونما Development سے مراد وہ پوشیدہ صلاحیتیں ہیں جو طالب علم کو اپنے ماحول سے ہم آہنگ کرتی ہیں۔

انسان کو تمدنی زندگی کا اہل بنانے کے لیے تعلیم و تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے تعلیم کے عمل میں ترتیب کے پہلو کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ تربیت سے مراد عموماً عام زندگی سے سیکھنے کے لیے جاتے ہیں، لیکن تعلیمی نظام میں فرد کو معاشرے کا مہذب شہری بننے کے لیے جن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے ‘ان مراحل کو تربیت کا نام دیا جاتا ہے اس لیے پڑھانے کے عمل کے ساتھ بچے کی تربیت پر بھی خصوصی توجہ دی جائے۔وہ طالب علم جو تعلیم کے شعبے کو بطور کیریئر اپنانا چاہتے ہیں انھیں چاہیے کہ تعلیمی نفسیات اور فلسفہ علم پر لکھی گئی کتابوں میں سے چند کتب کا بھی مطالعہ کریں‘ یہ مطالعہ ان کے لیے مفید ثابت ہوگا۔

بشکریہ روزنامہ آج