346

دو تہائی، پی ٹی آئی

جب عمران خان وزیر اعظم تھے تو اسلام آباد کیپٹل اتھارٹی کے ایک افسر نے ایک دن مجھے کہا کہ ’’ہمیں بنی گالہ کا نام بدل دینا چاہئے‘‘ ۔میں نے حیرت سے پوچھا ،’’وہ کیوں؟ ‘‘ تو کہنے لگا’’پاکستان میں ہندوؤں اور انگریزوں کے نام پر جتنی جگہیں جتنے شہر تھے ، ہم نے پاکستان بننے کے بعد انہیں تبدیل کیوں کیا تھا۔ لائل پور کا نام فیصل آباد رکھا ۔ منٹگمری کا نام ساہیوال قرار دیا ۔ہم نے اپنے میزائلوں کے نام غوری ، غزنوی اورابدالی رکھےاور صرف ہم نےہی نہیں بھارت نے بھی یہی کیا ۔غوری میزائل کے مقابلے میں بھارت نے اپنے میزائل کا نام پرتھوی رکھا۔ محمد غوری بارہویں صدی کے ایک مسلمان سپہ سالار تھے جنہوں نے شمالی ہندوستان کے حکمران پرتھوی راج چوہان کے ساتھ دو جنگیں لڑی تھیں۔محمود غزنوی گیارہویں صدی کے حکمران تھے جنہوں نے ہندوستان کو فتح کیا تھا۔اسی طرح احمد شاہ ابدالی بھی اٹھارویں صدی کے فاتح ہند تھے۔ ناموں سے قوموں کی سوچ کا اظہار ہوتاہے ۔ ‘‘میں نے پوچھا کہ جب نواز شریف وزیر اعظم تھے آپ نے انہیں یہ مشورہ کیوں نہیں دیا تھاکہ جاتی امرا کا نام شریف آباد رکھا جائے ؟سو بنی گالہ کا نام عمران خان آباد ہوتے ہوتے رہ گیا۔مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ پورا پاکستان عمران آباد بن گیا۔وہ مسلسل لوگوں کے دلوں کی دھڑکن بنتا چلا گیا۔اس وقت دنیا میں سب سے مقبول پاکستانی برانڈ کا نام عمران خان ہے ۔

میں چوں کہ میانوالی کا ہوں اس لئے میں نے یہ روشنی کا برانڈ ہمیشہ میانوالی کی وساطت سے دنیا کے افق پر طلوع ہوتےہوئے دیکھا ۔میانوالی نے اپنی ر ت بدلی۔دریائے سندھ کے پانی میں گندھی ہوئی مٹی نے کہا’تو جہاں بھی پھرتا رہے، جن آسمانوں پر بھی پرواز کرتا رہے،تجھ سے میرے خمیر کی خوشبو کی مہکار ضرور اٹھے گی ۔ میانوالی ایک عجیب و غریب سر زمین کا نام ہے۔یہ تیس میل چوڑی اور تقریباً پچاس میل طویل ایک سرسبز و شاداب وادی ہے،جس کے تین اطراف میں بے آب و گیاہ پہاڑی سلسلے ہیں اور ایک طرف صحرا ہے۔ریت ہی ریت ہے۔ دریائے سندھ پہاڑوں سے نکل کر پہلی بار جس میدانی علاقہ میں اترتا ہے وہ یہی میانوالی ہے۔ اقبالؔ کا کہا یاد آرہا ہے کہ’’ فطرت کے مقاصد کی نگہبانی... ..یا بندہ ٔ صحرائی یا مردِ کوہستانی ‘‘ اور میانوالی کے لوگ تو صرف بند ۂ صحرائی اور مردِ کوہستانی ہی نہیں مرد میدانی اور مردِ دریائی بھی ہیں یعنی جیون کے خوبصورت مقاصد کی نگہبانی کیلئے عمران خان کا انتخاب کوئی اتفاق نہیں بلکہ قدرت کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔ میں ذاتی طور پر ’’اتفاقات‘‘ کا قائل نہیں ہوں۔ میرے نزدیک کہیں بھی کوئی اتفاق نہیں ہوتا، وہی کچھ ہوتا ہے جو ہونا ہوتا ہے۔یعنی یہ بات آسمانوں پر کہیں طے کردی گئی ہےکہ اس زوال آمادہ قوم نے عمران خان کے پیچھے پیچھے چل کر آخر ایک دن اندھیروں بھری پستیوں سے باہر نکلنا ہے۔اگرچہ عمران خان کے راستے میں لوگ خندقیں کھودتے رہے ہیں مگر وہ مسلسل شاہراہ ِ قائداعظم پر آگے بڑھتے رہے ہیں۔

میانوالی کی مٹی ایک بار پھرسرخرو ہونے والی ہے۔اس وقت پوری قوم عمران خان کی آواز پر لبیک کہہ رہی ہے۔یہ آواز اگر کسی کو سنائی نہیں دے رہی تو اس کی اپنی سماعت کا مسئلہ ہے ۔اس وقت تو یوں لگ رہا ہےکہ عمران خان کسی فردِ واحد کا نام نہیں۔ ایک زندہ و تابندہ تحریک کا نام ہے۔پاکستانی قوم کے دھڑکتے ہوئے دل کا نام ہے، اجتماعی ضمیر کا نام ہے بلکہ پوری پاکستانی قوم کا نام ہے یقیناً میانوالی کے اسی سرخیل نے فطرت کے مقاصد کی نگہبانی کرنی ہے۔ایک بار پھر یہی لگ رہا ہے کہ عمران خان پاکستان کا وہ چہرہ ہے جس کی پیشانی پرفتح مبین لکھا ہوا ہے۔وہ چہرہ جس کی آواز میں حق تلفی کرنے والوں کیلئے للکار ہے۔عمران خان لوگوں کا وہ اعتماد ہے جو ان کے دل ودماغ پر نقش ہو چکا ہے ۔اس بھروسے اور یقین کومزید کسی ثبوت کی ضرورت نہیںوہ غیر فانی اعتماد،نئے پاکستان کا خواب ، بچوں، بوڑھوں ، نوجوانوں اورخواتین کے جوش و ولولے اور اخلاص و استقلال سے عیاں ہے ۔گلی کوچوں اور بازاروں میں اس کی جھلک نظرآتی ہے۔عمران خان نے ناامیدی کے بنجر صحرا کو امید کے ثمر آور شجرسے روشناس کرادیا ہے۔یہ وہ جہاد ہےجو بہت خوش قسمت لوگوں کے نصیب میں آتا ہے ۔ بہت سی آنکھیں یہ بھی پوچھتی ہیں کہ پچھلے تین ساڑھے تین سال میں عمران خان نیا پاکستان نہیں بنا سکا،کیا اب بنا لے گا ؟ہمارا ایمان ہے کہ کفر کا نظام چل سکتا ہے ناانصافی کا نظام نہیں چل سکتا۔کیا تین سال میں انصاف ہوا ؟ ہم نے جن خوبصورت تبدیلیوں کے خواب دیکھے تھے وہ کیوں تعبیر سے آشنا نہیں ہوئیں؟ کیا اب عمران خان ایسا پاکستان بنا لے گا،جس کی زبان محبت ہو، جس کی پہچان انسانیت ہو،کیا اب و ہ اس ملک کوبھوک ، غربت، بیروزگاری، ناانصافی ،دہشت گردی اور ریاستی تشدد کے عفریت سے نجات دلا سکے گا،کیا اب وہ اس ملک کی لوٹی ہوئی رقم لٹیروں سے چھین کر واپس عوام میں بانٹ سکے گا ،کیا اب وہ اس ملک کو قرضوں کی لعنت سے ہمیشہ کےلئے محفوظ کرسکے گا؟ میرے ذاتی خیال میں اگر عمران خان دو تہائی اکثریت سے اگلے انتخابات میں کامیاب ہو جائے تو یہ سب ممکن ہے۔ شاید اسی لئے پی ٹی آئی نے یہ نیا نعرہ نکالا ہے۔

آئی آئی، پی ٹی آئی

دو تہائی، پی ٹی آئی

بشکریہ جنگ نیوزکالم