113

75 سالہ پاکستان کس کی طرف دیکھ رہا ہے ؟

محمد خورشید اختر ،  
  قیام پاکستان کی 75 سال ھونے پر ڈائمنڈ جوبلی منائی جا رہی ہے ،ابتلا آزمائش کے دن ختم نہیں ہوئے ، تحریک پاکستان سے قیام پاکستان تک کے حالات جو کچھ بھی ہوں ، اس کا جائزہ اور تجزیہ سامنے آتا رہتا ہے ، یہ بات طے ہے کہ جس دیانت ، اسٹیٹ مین شپ اور مستقل مزاجی کا مظاہرہ قائد اعظم محمد علی جناح نے کیا شاید ہی کوئی ایسا کر سکتا ہے ، باقی تحریکوں میں اونچ نیچ ھوتی ریتی ھے ، مگر گیارہ اگست 1947ء کو قائد اعظم محمد علی جناح کو قانون ساز اسمبلی کا اسپیکر منتخب کیا گیا ، اس کے بعد قائد اعظم نے اسمبلی سے جو خطاب کیا وہی اصل پاکستان ویژن تھا جس کو  بھلا دیا گیا ، پاکستان ایک ایسی ریاست ھوگی جہاں تمام مذاھب کا احترام ، تحفظ اور حقوق حاصل ھوں گے ، اگرچیکہ مسلم اکثریت کی یہ ریاست اپنی فکری بنیاد پر کھڑی ہے مگر وہی نظریہ جو اسلام نے بھی دوسرے مذاھب اور طبقات کو دیا تھا قائد اعظم نے بھی اس کا اعادہ کیا ، بدقسمتی سے اس نظریے کی نفی کی گئی اور آج تک ابتلا اور انتہا پسندی ختم نہیں ہو سکی ، ایک جمہوری اور فلاحی مملکت کا خواب پورا نہیں گو سکا ، اس کی بڑی وجوہات ہیں ، تاہم چند کا جائزہ لیا جائے تو سب سے بڑی وجہ اقتدار کی رسہ کشی ھے, 
  قیام پاکستان سے آج تک تاریخ  کا جائزہ لیں تو کوئی ایک سال بھی ایسا نہیں گزرا جب یہ جھگڑا کھڑا نہ ھوا ہو کہ اقتدار کا سہرا کس کے سر سجایا جائے ، اول دن سے اس کے لیے لابنگ اور سازشیں شروع ہوگئیں ، اقتدار کا ایک مخصوص طبقہ اشرافیہ وجود میں آ گیا ، جس نے قاید اعظم ، فاطمہ جناح اور لیاقت علی خان جیسے لوگوں کو بھی پس منظر میں دھکیل دیا ، وہی سوچ اور نظریہ اقتدار آج تک چل رہا ہے ، اگر گورنر جنرل غلام محمد جیسا معذور شخص ، ایک سیکرٹری کے ساتھ نوزائیدہ مملکت پر حکومت کرتا رہا اور جمہوریت ، عوامی اختیار اور انصاف کے ساتھ کھیلتا رہا تو اس سے بڑا المیہ کیا ھو سکتا ھے ، ؟ بات یہاں تک نہیں رکی ، بلکہ اسی اقتدار کی رسہ کشی نے آئین سازی ، جمہوری روایات ، کے راستے میں رکاوٹیں ڈالیں ،یہاں تک کہ ہر طاقت ور طبقہ اقتدار کے لیے ایک مخصوص ٹریک پر چل پڑا ، مارشل لاء ، اور 65ء کی جنگ نے خطرات اتنے بڑھا دئیے کہ بیرونی دشمنوں پر نظر رکھنے کے لیے اندرونی خطرات کو جنم دیا گیا ، اسی اقتدار کی کشمکش نے 1971ء میں سانحہ مشرقی پاکستان جیسا زخم لگایا ، سیاسی دانست ، برداشت اور شکست تسلیم نہ کرنے کا غیر جمہوری رویہ اور طاقت ور کی خواہشات نے اس سانحے کو سارا مواد فراہم کیا جو کسی بھی بڑے زخم کے لیے کافی تھا ، کیا اس کے بعد تاریخ سے سبق سیکھا گیا ، جواب نفی میں ہے ، یہی سب سے بڑی بدقسمتی اور ناکامی ھے ، آج 75 سال بعد بھی اقتدار کی رسہ کشی کے وہی حالات ، وہی واقعات اور وہی سانحات جنم لے رہے ہیں ، کوئی سوچنے والا نہیں ، 
دوسری بڑی وجہ معاشی اور معاشرتی ناانصافی تھی ، پہلے غریب اور امیر دو طبقات وجود میں آئے ، جن میں واضح فرق بیوروکریسی ، دولت کی ھوس اور اقتدار کے حصول نے ڈالا ، انہی دو طبقات کو تقسیم در تقسیم سے پسماندہ ، انتہائی غریب ،غریب ، میڈل کلاس اور دولت مند اور انتہائی دولت مند کے مختلف طبقات بنا دیئے جس کے واضح اثرات معاشرے پر نمایاں ھوئے معاشی انصاف کے حصول میں رکاوٹوں نے انتہا پسندی ، عدم  برداشت اور گروہی تقسیم گہری کر دی ، ھمارے۔ جیسے معاشروں اور جہالت کی وجہ سے سیاست کے اثرات براہ راست سماج پر پڑھتے ہیں ، اگر تعلیم اور ٹیکنالوجی کی بنیاد پر ترقی کا آغاز کیا جاتا تو سیاست کے معاشرے پر اثرات نہ ھوتے ، چونکہ سماج اپنی رفتار سے ترقی کرتا اور وہ سیاست کا محتاج ہی نہیں ھوتا ، سرسید احمد خان نے برصغیر کے مسلمانوں کو یہی درس دینے کی کوشش کی تھی کہ سماج اگر کمزور ہو گا تو ایک مضبوط حکومت کو بھی کمزور کر دے گا اور اگر سماج اچھا ہے تو بری حکومت کو بھی کھنچ کر اچھا بنا سکتا ہے مگر یہاں سماج میں جہالت ، ناانصافی اور نفرت کا بیج بو کر چھوڑ دیا گیا ، جو اب جنگل بن چکا ہے ، جس کو کوئی بھی کاٹنے کی کوشش کرتا ہے نیا آگ آتا ہے ، اس جنگل میں کیا روشنی اور کیا اچھائی ، طاقت ور کا سکہ چلتا ہے جنگل کے بادشاہ کی مرضی ھے ، وہ جیسے چلائے ، ھاں اسے لیجٹمسی کا کھٹکا رہتا ہے جو ہر طرح کے حربے استعمال کر کے وہ حاصل کر لیتا ہے ، آپ کے ساتھ وجود میں آنے والی بھارتی ریاست کا وزیر تعلیم بنتا ہے مولانا ابوالکلام آزاد اور یہاں تعلیم کی وزارت اضافی طور دی جاتی ہے جس سے تعلیم اور ترقی کی اہمیت کو پرکھ سکتے ہیں ، وہاں آئین سازی جو فروغ دیا جاتا ہے اور یہاں طاقت کے زور پر اقتدار کو پروان چڑھایا جاتا ہے ، دور نہ جائیں 1971ء میں ھم سے الگ ھونے والا بنگلہ دیش آج کہاں کھڑا ہے ، چین کی ترقی رفتار کہاں ھے ؟ گویا یہاں جہالت کی وجہ سے سیاست کے سماج پر  گہرے اثرات  ہیں ، اور آج تک وہ اثرات اتنے گہرے ھو چکے ہیں کہ ہر ادارے ، ہر سماجی انسٹیوٹ میں سیاسی کشمکش اور جھگڑا عام ھوگیا ھے ، کوئی مسجد ، مدرسہ ، دکان ، ھوٹل ، تعلیمی ادارے ، حکومتی اور نجی ادارے بحث سے عمل تک سیاست اور سیاسی مفادات کے لیے لڑتے ہیں ، سماج میں ان طبقات کا اہم کردار ہے ، اور دعوت ، تعلیم اور تحقیق کے مقاصد پس پشت ڈال کر یا پیشہ ورانہ خدمات کو نظر انداز کر کے ہر وقت سیاسی مفادات میں الجھے رہتے ہیں ، یہ معاشرتی بگاڑ اتنا ھو چکا ھے کہ کوئی راہ نہیں دکھائی دیتی ، لوگ بیرونی سازشوں یا  مداخلت کی بات تو کرتے ہیں لیکن اندر ھم نے کیا کیا کسی کو خبر نہیں ، باقی کئی وجوہات ھوں گی مگر درج بالا سیاسی ، سماجی اور معاشی ناانصافیوں نے قوم و ملک کو آگے نہیں بڑھنے دیا ، 
   امید کی کرن موجود ہے جس کا سب سے بڑا ذریعہ اور وسیلہ نوجوان ہیں ، جن کی اسوقت میک اینڈ بریک والی پوزیشن ہے 65 فیصد ابادی کا یہ طبقہ پاکستان کو آگے لے جا سکتا ہے ، کوئی باکردار ، وفادار اور دیانت دار قیادت ان سے ہی اٹھے تو حالات بدل سکتے ہیں ، کوئی حکومت یا سماجی طبقات ان کو ساتھ لے کر چلے تو بھی حالات بہتر ہو سکتے ہیں ، جس کے لیے قول و فعل کا تضاد ختم کرنا ھو گا اور  قاید اعظم کے اس قول کے مطابق نوجوان قومی سرمایہ ہیں ، یہ سرمایہ پاکستان کی اصل منزل ھے ، کیا کوئی اس طرف توجہ دے گا ؟آج 75 سالہ پاکستان انہی نوجوانوں کی طرف دیکھ رہا ہے ،

بشکریہ اردو کالمز