125

ہر حد کی ایک حد تو ہوتی ہے 

ہماری مروجہ  سیاست میں ہر گزرنے والے دن کے ساتھ بڑھتی تلخی اور بعض رہنماوں کی جانب سے  ریاستی اداروں پر تنقید کے نام پر ان اداروں میں ہم خیالوں کی موجودگی کا دعویٰ کرتے ہوئے   تقسیم کا باعث بننے والے بیانات ہر دو پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔
 سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کو باہمی اختلافات پر اظہار رائے کے دوران تحمل و تدبر  کا مظاہرہ کرنا چاہیے تاکہ ان کی کہی جذباتی باتوں کا اثر لے کر ان کے ہمدردان سماجی ماحول کو خراب نہ کریں اور اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرتے وقت بھی یہ ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ آئین نے آزادی اظہار کی جو حدود طے کردی ہیں ان سے تجاوز نہ ہو۔ 
ہماری سیاست اور طرز حکومت ہر دو کا ہمیشہ سے یہ خاصا رہا ہے کہ اقتدار میں آنے کے لئے اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیوں اور کاندھوں کے استعمال  ہر دو کو عین حب الوطنی سمجھا جاتا ہے اور اقتدار سے محرومی پر اسی اسٹیبلشمنٹ کو عوام دشمن، دستور مخالف اور طالع آزما قرار دے دیا جاتا ہے ،  اب تو  کچھ عرصہ سے اس میں میر جعفر و میر صادق کی اصطلاحیں بھی استعمال ہونے لگی ہیں۔
اصولی طور پر  اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیوں اور کاندھوں کی طلب جمہوری سوچ ہے نہ دونوں سے محرومی کی صورت میں اسے نشانہ پر رکھ لینا درست بات۔ 
اس امر پر دو آراء ہرگز نہیں کہ پچھتر سالہ ملکی تاریخ میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار دستور کے مطابق  نہیں رہا۔ تین بار باضابطہ مارشل لاء اور ایک بار نیم مارشل لاء کی صورت میں فوجی حکومتیں اقتدار میں آئیں ۔ مجموعی طور پر آئین شکن  حکومتوں کا یہ دورانیہ لگ بھگ 34برس بنتا ہے۔ 
باقی ماندہ 36برسوں کی تاریخ بھی یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ حکومتیں بنواتی اور گراتی رہی۔ 
انتخابی نتائج کی تبدیلی سمیت تجاوز کے مختلف الزامات کا اسے ہمیشہ سامنا رہا۔ اسٹیبلشمنٹ کے اس کردار پر آزادی اظہار کی حدود میں رہتے ہوتے تنقید بلاشبہ فرد، طبقے یا سیاسی جماعتوں کا حق ہے اور یہ آئین  میں دیا گیا ہے۔
 ماضی میں اس دستوری جمہوری حق کا استعمال کرنے والوں پر کیا کیا بیتی یہ بھی ہماری سیاسی اور ملکی تاریخ کا حصہ ہے۔ کوئی بھی روشن فکر جمہوریت پسند اور مساوات کاحامی شخص کبھی بھی آئین سے ماورا کسی اقدام اور انتظام کا حامی نہیں رہا۔ 
وقتی مصلحتوں اور ضرورتوں پر اگر کسی نے کبھی ماورائے آئین اقدام و انتظام کی حمایت کی بھی تو  جمہوریت پسندوں نے شخصی احترام کے باوجود اسے آڑے ہاتھوں ہی  لیا۔
 امر واقعہ یہ ہے کہ ریاست کے انتظام و نظام بارے فیصلہ رائے دہندگان کا حق ہے اور وہ انتخابی عمل میں ووٹ کی پرچی سے اپنی پسند کی جماعت کو ووٹ دیتے ہیں۔ ووٹ دینے والوں کی یہ شکایات ہر انتخابی عمل کے بعد سنائی دیں کہ ان کے فیصلے کو جھرلو سے تبدیل کیا گیا۔
 بعض مواقع پر عوامی فیصلہ تبدیل کرنے والوں نے بھی ایسی بات کہہ دی جس سے انتخابی عمل میں مداخلت ثابت ہوگئی۔ گو بعد میں اپنی کہی بات کی وضاحت کے لئے تاویلات پیش کی گئیں لیکن کمان سے نکلا تیر اور زبان سے نکلی بات واپس نہیں ہوتے۔ 
المیوں سے عبارت ہماری سیاسی تاریخ کے ہر صفحہ پر یہ شکایت نمایاں طور پر درج ہے کہ پاکستان کو پچھتر برسوں میں ایک حقیقی فلاحی جمہوری ریاست نہیں بننے دیا گیا بلکہ اس تاثر کو راسخ کیا گیا کہ یہ ایک سکیورٹی سٹیٹ ہے اور جغرافیائی وجود کی ضمانت بھی سکیورٹی سٹیٹ کا نظریہ ہے۔ 
یہ سوچ متحدہ ہندوستان میں الگ شناخت کے حامل ملک کے حصول کے لئے جدوجہد کرنے والوں کے نظریات سے یکسر متصادم ہے۔ بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح کی 11اگست 1947ء کو دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں کی گئی تقریر اصل میں اس ریاست کے نظام، طرز سیاست، سماجی اقدار اور انفرادی و اجتماعی فرائض کے حوالے سے بیانیہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
 اس بیانیہ کے ساتھ گزشتہ 75برسوں میں کس نے کیا سلوک کیا یہ درون سینہ راز ہرگز نہیں۔
آج کا سوال بہرطور یہ ہے کہ کیا پاکستانی سیاست کو اپنے بانی کے پیش کردہ بیانیہ کی طرف لوٹ کر اس سے رہنمائی لینا چاہیے یا گھٹالوں کا یہ عمل ہی جاری و ساری رہے جس سے معاشرتی ناہمواریاں مزید  بڑھیں 
  انصاف اور نظام حکومت پر سوالات ہمیشہ ہی  اٹھے اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت لوگوں کے اذہان میں سیاسی عمل و سیاسی نظام کے خلاف زہر بھی  بھرا گیا؟
 ہماری دانست میں دو حصوں پر مشتمل اس سوال کا جواب ہی ہمارے اور ہماری آئندہ نسلوں کے ساتھ اس مملکت کے مستقبل کا بیانیہ ہوگا۔
 اسے بدقسمتی کہہ لیجئے کہ پوشیدہ اور ظاہری ہاتھوں و زبانوں نے مختلف الخیال جماعتوں کے حامیوں میں ایک دوسرے کے خلاف اتنا زہر بھردیا ہے کہ کوئی بھی اپنے سوا دوسرے کو محب وطن اور قانون پسند سمجھنے پر تیار نہیں ستم بالائے ستم   سیاسی عمل میں اپنی اپنی ناکامیوں کی پردہ پوشی کے لئے لوگوں کے مذہبی جذبات کو بھڑکانے کا کاروبار ہے۔
 حالانکہ جمہوری ریاست اور نظام و سیاست کا بنیادی اصول یہی ہے کہ سیاست جمہوری اصولوں اور اس منشور کی بنیاد پر ہونی چاہیے جو سماجی ناہمواریوں کو ختم کرکے ایسے عادلانہ نظام کے قیام کو یقینی بنائے جس سے جمہوری نظام مستحکم ہو۔
 سیاسی عمل کے بنیادی اصول سے انحراف اور لوگوں کے مذہبی جذبات کو بھڑکاکر فوری مفادات کے حصول کی بے لگام خواہشوں نے مملکت اور نظام کو جہاں لاکھڑا کیاہے یہ کوئی قابل فخر مقام ہرگز نہیں۔
 یہ مملکت فلاحی جمہوری نظام کے قیام کے لئے قائم ہوئی تھی، فتح و شکست کے اصول پر نہیں۔
 بانی پاکستان نے دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس اور پھر سٹاف کالج کوئٹہ میں جو خطابات کئے ان دونوں خطابات کو اگر دستور کا بیانیہ بنالیا گیا ہوتا تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتے۔ 
یہ عرض کرنا غلط نہ ہوگا کہ اسٹیبلشمنٹ کی محبت اور مخالفت کے شوق پورے کرنے کی بجائے سیاسی جماعتیں اور قائدین حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حقیقی عوامی جمہوریت سے گندھے نظام کے قیام کے لئے جدوجہد کریں۔
 ایک کثیرالقومی اور کثیرالمسلکی ملک کی وحدت کی ضمانت صرف اور صرف عوامی جمہوریت اور مساوات کے اصول پر عمل میں ہے۔ دشنام طرازی کی سیاست، مذہبی جذبات بھڑکانا، اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیوں اور کاندھوں کی طلب یا نہ ملنے کی صورت میں ہذیانی رویہ اپنالینا یہ سب کسی بھی طرح درست نہیں۔ 
درست ہمیشہ یہی تھا اور رہے گا کہ کسی بھی ریاست میں اقتدار اعلیٰ اور نظام کے لئے قیادت کا انتخاب رائے دہندگان کا حق ہے۔ سادہ لفظوں میں یہ کہ اقتدار عوام کی ملکیت ہے وہی اپنے نمائندوں کے انتخاب کا حق رکھتے ہیں۔ 
عوامی رائے (ووٹ سے فیصلے) کی کسی بھی طرح پامالی ریاست کے وجود اور وحدت پر حملہ ہے۔ ہمارے سیاسی قائدین اس ابدی سچائی کو کب کھلے دل سے تسلیم کریں  گے اور کب اس حقیقت کو بھی کہ دستور سے ماوراء  "دعوتیں "  ، عوام اور جمہوریت کی توہین کے مترادف تھیں اور ہوں گی۔
 آج ہی کیا اس ملک میں حالات ہمیشہ اس امر کے متقاضی رہے ہیں کہ نفرتوں کی بجائے محبتوں کو پروان چڑھایا جائے۔ دستور کی بالادستی سے انحراف کیا جائے نہ منحرفین کی حوصلہ افزائی۔
 ہم امید ہی کرسکتے ہیں کہ دستیاب سیاسی قیادتیں ان معروضات پر ٹھنڈے دل سے غور کرکے اپنی توانائیاں حقیقی عوامی جمہوریت اور نظام کے قیام کے لئے بروئے کار لائیں گی۔ بصورت دیگر
 " داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں "

بشکریہ اردو کالمز