124

کپی نوشی یاکپی کشی

ایک کامریڈنے دوسرے کامریڈ سے ایک تیسرے کامریڈ کاذکرکرتے ہوئے کہاکہ بڑے موج مزے میں ہے ۔وہ تیسرا کامریڈجوکسی زمانے میں سینئر کامریڈ ہواکرتاتھا،اپنی خداداداورخود ایجاد صلاحیتوں سے ترقی کرکے ان دنوں اس وقت ’’انکسی نشین‘‘اور تقریباًآدھا وزیراعلیٰ تھا۔

دوسرے کامریڈنے پہلے کامریڈسے اس تیسرے کامریڈ کے بارے میں سناتو بولا۔ہاں وہ وقت بھول گیاہے جب ہمارے ساتھ چارسدہ میں ’’کپی‘‘پیاکرتاتھا اورآج کل انیس ہزارکی بوتل ہررات پیتاہے۔جس طرح ہرکمیونٹی کی اپنی ایک خاص زبان ہوتی ہے۔

 

اسی طرح کامریڈوں کی بھی ایک مخصوص زبان ہوتی ہے، ہم بھی کچھ عرصہ کامریڈ تو نہیں لیکن کامریڈ شناس رہے ہیں، اس لیے چند نام اوراصطلاحات کے بارے میں جانتے ہیں ’’کپی‘‘ خالص کامریڈی اورہشت نگری اصطلاح ہے۔کامریڈلوگ جب کامریڈ ہوجاتے تھے۔

 

یہ ہم اپنے علاقے کی بات کررہے ہیں، تو ان کاکام روزانہ کہیں اکٹھے ہوکر مذہب پر تنقید کرنا،کفر بکنا اور’’کپی‘‘کشی کرناہوتاتھا ۔  معلوم نہیں کپی کااصل مفہوم کیاہے لیکن یہ لوگ ’’متیھلیڈاسپرٹ‘‘میں جوعام ملتاہے، پانی ملاکر پیتے ہیں اورشراب کامزالیتے ہیںاوراسی کو کپی ،کپی نوشی یاکپی کشی کہتے ہیں ۔بہت ہی خطرناک اورانسانی صحت کے لیے تباہ کن چیزہے لیکن ’’نشہ‘‘ہوتاہے اوروہ نشہ ہی کیاجس میں آدمی سوچنے سمجھنے کے قابل رہ جائے، شراب بھی ایک اسپرٹ پر مشتمل ہوتی ہے جسے عام زبان میں الکوحل اورخاص زبان میں ’’اسپرٹ زنجی بیرس‘‘ کہتے ہیں سپرٹ زنجی بیرس تو عام ملتی نہیں اس لیے عام اسپرٹ میتھلیڈسے کپی کاکام لیتے تھے۔

یہ ہم نے پہلے پبی میں ایک حکیم کی دکان میں بیٹھ کر مشاہدہ کیاتھا، اس کے پاس جمعداریا سوئیپر لوگ آکر ایک ’’مگ‘‘آگے کرتے تھے جس میں پانی بھرا ہوتاتھا، حکیم صاحب اس میں اوپرسے دوروپے کا اسپرٹ ڈال دیتے تھے اوروہ لوگ کھڑے کھڑے غٹاغٹ پی لیتے تھے لیکن کامریڈوں نے اسے باقاعدہ نام دیا تھا ’’کپی‘‘

اس تیسرے یاسابق کامریڈ کے بارے میں بھی ہم بہت کچھ جانتے ہیں جو اب ’’کپی‘‘ کے بجائے انیس ہزارکی بوتل پیتاہے لیکن نہیں بتائیں گے کہ اس قسم کے نہ جانے کتنے لیڈر،صحافی، اورشاعروصورت گروافسانہ نویس ہیں جو نظریات، عقائد اورانسانوں کی سیڑھیاں بناکر ’’بام‘‘تک پہنچے ہیں جو کبھی کپی کش تھے اورآج کل انسانیت کش ہیں۔اصل میں ہمیں کپی کشی کے بارے میں ایک لطیفہ سناناہے جوخودہمارے ساتھ پیش آیا۔

جب ہم افغانستان پہلی مرتبہ گئے تو وہاں کچھ دکانوں میں جلی حروف میں کپی کشی فلاں،کپی کشی فلاں لکھا دیکھا ،حیرت ہوئی کہ اتنا کھلے عام ’’کپی کشی‘‘ اورپھر افغانستان میں تو اصلی شراب بھی عام اورسستی ہے کیوں کہ انگور۔عرف ’’دختررز‘‘کی پیداوار بہت زیادہ ہے تو پھر یہاں کپی کشی کی کیاضرورت ہے جو قدم قدم پر دکانیں کھلی ہیں ،کپی کشی عتیق،کپی کشی فیضی۔ کپی کشی نور بلکہ ایک دو جگہ تو کپی کشی رحمت اور برکت بھی لکھادیکھا۔

ہم باہرکھڑے ہوکر دیکھنے کی کوشش کرتے کہ جب کپی کشی اتنی عام ہے تو اندر ’’بار‘‘جیساسلسلہ ہوگا لیکن وہاں تو ایسا کچھ بھی نہیں ہوتاتھا چند لوگ زمین پر بیٹھ کر ہتھوڑوں سے لوہا کوٹتے تھے ۔ایک دن تو کابل کے مشہوربازار ’’شعبہ‘‘میں کسی سے پوچھ بھی لیا۔شعبہ بازارپشاورمیں بھی ہے لیکن یہ کابل والے شعبہ کی نقل ہے وہاں اوریہاں دونوں شہروں میں شعبہ بازار ٹرکوں کے اڈوں۔مستری خانوں اوراسپیئرپارٹس پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہمارا اس بازار سے خاص تعلق یوں بنا کہ سارے افغانستان میں یہ ہماری پاکستانی دودھ والی چائے صرف شعبہ بازارمیں ملتی ہے۔

اس لیے ہم اکثردودھ والی چائے کے لیے شعبہ بازارجاتے تھے، خاص طورپر صبح کے وقت جب ہوٹلوں میں چائے کے ساتھ پراٹھے بھی ملتے تھے ۔اورکپی کشی کی زیادہ تر دکانیں اسی شعبہ بازار میں دیکھیں لیکن اس دانائے رازکو جب پشاورکے ایک ٹرک ڈرائیورنے کپی کشی کے بارے میں بتایاتو انگشت بدندان رہ گئے۔

اس نے کہا کپی کشی یہاں افغانستان میں ’’ڈینٹنگ‘‘ کوکہتے ہیں ،کپ دراصل کب یاڈینٹ کو کہتے ہیں اورگاڑیوں کے ناہموار دروازوں اورباڈی کے کب یاکپ نکالنے کو کپی کشی کہتے ہیں ،کمال ہے کہاں وہ چارسدہ کی کپی کشی اورکہاں یہ کابل کی کپی کشی،لیکن پھر اچانک دونوں کاتعلق سمجھ میں آگیا،چارسدہ میں کپی کشی سے دماغ کے کب اورڈینٹ نکالے جاتے ہیں اوریہاں گاڑیوں کے یایہ کہ دونوں جگہ کوٹنا ضروری ہے ،کامریڈوں کے دماغ میں بھی تو بہت سارے ڈینٹ پڑجاتے ہیں۔

بشکریہ ایکسپرس