شہر تو شہر ہے

ان دنوں تو ٹھنڈی ہواؤں کا راج ہے حبس کا عالم ہے مگر جلد دور ہو جاتاہے‘بارشوں نے شہری زندگی میں پریشان کن حد تک مداخلت کر رکھی ہے‘مگر ہمارے پشاور میں باران کی وہ یلغار نہیں جو دوسرے علاقوں میں ہے‘وہ اس طرح کہ شہری ابھی تک سُکھ کا سانس ہی نہیں لے پائے‘ہم شہر کی حدود سے نکل کر رنگ روڈ پر آئے تو ٹھنڈی ہوا کا چلن کچھ زیادہ محسوس ہونے لگا تھا‘وجہ یہ تھی کہ یہاں کھلی فضا ہے جہاں اندرون شہرکے برعکس چہار اطراف عمارتیں ہاتھ باندھے قطار اندر قطارکھڑی نہیں تھیں‘شہر کے اندرون یہ چلتی ہوئی ہوا محسوس نہیں ہوتی تو اسکی وجہ تنگ و تاریک بازار ہیں‘ عمارت کیساتھ عمارت ہے اور سامنے بھی کوئی نہ کوئی بلڈنگ ہے‘پیچھے مڑ کر دیکھیں تو حبس دم کا یہی عالم ہے پھر انسانوں کے جسموں کی بھیڑ ہے‘ایسے میں تو اچھا موسم بھی ہو تو اسکو اپنی تمام رعنائیوں کیساتھ محسوس کرنا مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ ہوا جسم کو ٹچ تو کرتی ہے مگر ہوا کے وہ تھپیڑے جو شہر کے باہر علاقوں میں محسوس ہوتے ہیں وہ شہر کے اندر نہیں آتے‘بلڈنگ کے آگے کھڑے ہوں تو بندہ اسکے نیچے یوں ہوجاتا ہے کہ جیسے اونٹ کے آگے چیونٹیاں گھوم رہی ہوں۔

ایسے میں ہوا اور کھلی فضا پھر دل کی کشادگی کے احساسات زائل ہونے لگتے ہیں یہی وجہ ہے کہ شہر اگرچہ حبس زدہ ہے مگرہمیں پیارا ہے‘شہر جیسا بھی ہے اگرچہ دھول مٹی گرد و غبار گھاس پھونس سے اٹا ہوا ہے مگر کیا کریں کہ اسکے بغیر ہمارا گذارا بھی تو نہیں جہاں ہم پیدا ہوئے وہ پرانے گھر وہ گلی محلے جہاں کھیل کود کر جوان ہوئے وہیں شادیا ں ہوئیں‘حتیٰ کہ بال بچے بھی وہیں بڑے ہوئے۔ مگر کیا ہے کہ اب وہی دیوارودر وہ گھر وہ صحن چھوٹے پڑ گئے ہیں کئی لوگ اس شہر سے نکل کر شہر کے باہر سستی جائیداد خرید کر اس میں آشیانہ تعمیر کر کے وہاں جا گھسے ہیں میں نے ایک فیملی سے پوچھا کہ اگر آپ کو موقع دیا جائے کہ آپ شہر کے اندراپنے باپ دادا کے گھر تنگ گلیوں میں دوبارہ سے رین بسیرا کر لیں تو آپ کیا کہیں گے اس پرانہوں نے کہا شہر تو شہر ہے پشاور تو پشاور ہے مگر جو یہاں سے گئے وہ دو سال میں غمزدہ ہو کر واپس آگئے تو آسکتے ہیں مگر جب شہر سے باہر کی کھلی آب وہوا میں بندہ کو زیادہ وقت گذر جائے تو پھراس کا شہر میں واپس آ کر رہائش اختیار کرنا ناممکن ہے کیونکہ باہر تو سات مرلہ اور دس مرلہ کے کھلے مکانات اپنی کھلی فضا کے ساتھ ارزاں نرخ میں مل جاتے ہیں سو ایسے میں جب بندہ کشادہ فضا میں عادی ہو جائے تو اس کو شہر یاد تو آئے گا مگر صرف یادوں ہی تک بات محدود رہ جائیگی کیونکہ شہر میں تین مرلہ کے مکانات ہیں اور سیڑھیاں ہیں نیچے منزل میں دو کمرے ہیں۔

 اوپر تین کمرے ہیں مگر بچوں کی احتیاج بڑھ چکی ہے‘ ہم شہر تو آتے جاتے ہیں وہاں کی خوشبو اپنی طرف کھینچ لاتی ہے‘ عزیزوں رشتہ داروں کے گھر جا دھمکتے ہیں مگر پھر واپس آنا ہوتا ہے۔شہر کے تین مرلہ مکان کی اتنی قیمت مل جاتی ہے کہ ان پیسوں میں شہر کے باہر دس مرلہ زمین حاصل کی جاسکتی ہے‘اب لوگ بدل رہے ہیں‘ شہر کے باہر آبادکالونیاں اتنی کشادہ ہیں کہ وہاں ایک بار بندہ بس جائے تو پھر اس کو شہر کی بھیڑ بھاڑ اور دھواں دار فضا راس نہیں آتی‘کوئی شہر کے اندرون چکر کیلئے گیا تو جا سکتا ہے مگر رہائش کے حوالے سے پرانے والی فضا گھٹن والی ہو جاتی ہے‘شہر تو اسی طرح پھیلتے ہیں اور بنتے ہیں۔تیار بنا بنایا شہر تو دنیا میں کوئی نہیں پہلے گاؤں ہوتا ہے اور بعد میں ٹاؤن بننا شروع ہو جاتا ہے آہستہ آہستہ وہی ٹاؤن اس قدر ترقی کر جاتا ہے کہ بعد میں وہ ایک چھوٹے سے شہر کا روپ دھا رلیتا ہے مگر بعد میں وہی شہر ایک بڑا شہر کہلانے لگتا ہے۔

 جیسے لاہور جیسے کراچی جیسے راولپنڈی شہر ہیں‘مگر یہ وسیع شہر آبادی کے زیادہ ہوجانے اور کاروبار کے پھیل جانے کے بعد دوبارہ سے اپنی وسعت میں تنگ داماں ہونے لگتے ہیں ان کی اس دامن کی تنگی کے سبب وہی انسان ایک بار پھر نئی بستیاں آباد کرنے کو رینگ کر آہستہ آہستہ پھیلتے ہوئے اسی شہر سے مزید باہر نکل جاتے ہیں اب تو سائنس کی ایجادات کے کارن ہمارے رسو م وراج رہن سہن کے لحاظ سے اتنے بدل گئے ہیں کہ ختم ہونے کے قریب ہیں کیونکہ اب تو گلی محلے میں رہنے والے ایک دوسرے سے باخبر ہی نہیں ہوتے ہمارے پشاور کے باہر ایسی جدید بستیاں ہیں جہاں ایک کھلی ڈلی گلی میں کون کون رہ رہا ہے کیا کام کرتا ہے وہاں کے مکینوں کو اتنا بھی پتا نہیں ہوتا اور اسی حالت میں برسوں بیت جاتے ہیں۔

 

بشکریہ روزنامہ آج