122

جی بسم اللہ۔۔!!

موت ہمیشہ حیران کرتی ہے۔کیونکہ یہ زندگی سے لبریز فریم میں کبھی فٹ نہیں ہوتی۔ہمیشہ فریم سے باہر رہ جاتی۔ سو کار زندگی میں کھبے ہوئے لوگوں کی فہرست میں موت شامل نہیں رہتی ۔اسی لیے موت جب بھی آتی وہ غیر متوقع آتی ہے اور حیران کرتی ہے ۔ ممتاز ادبی شخصیات قائم نقوی اور ڈاکٹر اختر شمار کی موت نے بھی ایسے ہی وابستگان ادب کو حیران کیا ۔ قائم نقوی ریڈیو پاکستان کی محفل مسالمہ میں شریک ہوئے ،شہدائے کربلا کے حضور نذرانہ عقیدت پیش کیا ،پھر سنا ہے کہ ریڈیو کی کینٹین پر چائے پینے کے لئے رکے زندگی کی مہلت تمام ہو چکی تھی ۔ قضا وقدر کے ہدایت کار نے وہیں دھڑکتے ہوئے سین کو کٹ کر دیا، نہ ایک لمحہ اوپر نہ یک لمحہ پیچھے۔یوں قائم نقوی حقیقی معنوں میں بھری محفل سے اٹھ کر دنیا چھوڑ گئے۔قائم نقوی کی وفات کے چند روز بعد ڈاکٹر اختر شماربھی نو محرم الحرام کو شہر عدم کو روانہ ہوئے۔ اس سے پہلے ڈاکٹر اختر شمار کے فیس بک کے اکاؤنٹ سے ہی ان کی بیماری کی خبر آئی کہ ڈاکٹر اختر شمار آئی سی یو میں ہیں اور شدید علیل ہیں۔ دعائے صحت کی اپیل کی گئی۔اس پر بھی احباب نے حیرت کا اظہار کیا کیونکہ کسی کو خبر نہیں تھی کہ ڈاکٹر اختر شمار بیمار ہیں اور جگر کی کینسر کی تکلیف سے گزر رہے ہیں اور بیماری آخری تکلیف دہ مرحلے میں ہے ، بظاہر وہ بھلے چنگے ہی نظر آتے کیونکہ وہ لاہور کے ادبی منظر نامہ پر فعال دکھائی دیتے تھے۔ ڈاکٹر اختر شمار ممتازادبی شخصیت تھے، شاعر کالم نگار اور اردو ادب کے استاد تھے ،ایف سی کالج میں اْردو کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ تھے۔ ان کا ایک تاثرجو چند ملاقاتوں میں مجھ پر پڑاوہ ایک ایسے اعلی ظرف انسان کا تھا جو دوسروں کی صلاحیتوں کو ماننے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیتا بلکہ انہیں بڑا بنا کے خوش ہوتا ہے ۔ڈاکٹر اختر شمار سے پہلا رابطہ اس وقت ہوا جب میں نے اخبار میں معروف شاعر اطہر ناسک کی بیماری کے حوالے سے کالم لکھا ۔اطہر ناسک ڈاکٹر اختر شمار کے گہرے دوست تھے وہ اس وقت کینسر کے آخری سٹیج پر تھے انتہائی تکلیف میں تھے۔ ان کے مالی حالات بہت خراب تھے، مجھے عزیز دوست عفت علوی کا فون آیا کہ سعدیہ پلیز اطہر ناسک کے لیے کالم لکھو انہیں اس وقت امداد کی سخت ضرورت ہے ۔میں نے کالم لکھا ان دنوں ڈاکٹر اختر شمار جامعہ الازہر مصرمیں اردو اردو ڈپارٹمنٹ میں پڑھاتے تھے انہوں نے غالباً ایک ای میل کی اور اطہر ناسک کے ساتھ اپنی گہری دوستی کا تذکرہ کرتے ہوئے کالم لکھنے پر میرا شکریہ ادا کیا۔یہ ا ن سے میرا پہلا رابطہ ہوا ۔میں ان کو ان کی شاعری کے حوالے سے خصوصاً اس شعر کے حوالے سے جانتی تھی۔ میں تو اس واسطے چپ ہوں کہ تماشا نہ بنے تو سمجھتا ہے مجھے تجھ سے گلہ کچھ بھی نہیں دکھ کی بات یہ کہ کالم لکھنے کے کچھ ہی دنوں بعد اطہر ناسک چل بسے۔ جاتی گرمیوں کے دن تھے جب آپا بشری رحمن نے کچھ ادیبوں شاعروں کو اپنے دفتر میں چائے کی دعوت دی۔ ڈاکٹر اختر شمار بھی تشریف لائے اور مجھے کہا کہ آپ کا انٹرویو اپنے اخبار کے لیے کر نا ہے میں نے ان سے معذرت کر لی اور کہا کہ میں نے ایسا کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا کہ انٹرویو کیا جائے۔میں تو یہ سمجھی کہ کچھ روز میں ڈاکٹر شمار بھول جائیں گے لیکن وہ برابر فون کرتے اور یادہانی کرواتے رہے میں ٹال دیتی۔ ہفتے نہیں دو تین مہینے گزر گئے۔ بالآخر یہ انٹرویو ہوگیا جسے انہوں نے بہت شاندار انداز میں اپنے اخبار میں شائع کیا۔ انٹرویو دینے سے میں ہمیشہ گریز کرتی رہی ہوں لیکن ڈاکٹر اختر شما ر کو انٹرویو دینا میرے لئے بجائے خود ایک اعزاز تھا کہ وہ ادب کے استاد تھے اور ایف سی کالج کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ تھے۔وہ انٹرویو انہوں نے اپنے ادبی رسالے بجنگ آمد میں بھی بڑے اہتمام سے شائع کیا۔ میں نے اپنے سینئرز میں ایسے رویے بہت کم دیکھے تھے زیادہ تر ایسے رویوں کا سامنا رہا جس میں اپنے بعد میں آنے والوں کے لیے کم ظرفی کا اور تنگ نظری کا مظاہرہ تو نظر آئے مگر ان کو ماننے اور تسلیم کرنے سے گریز کی روش اپنائی جائے۔ڈاکٹر اختر شمار کے اندر واقعی ایک صوفی موجود تھا جو دوسروں کو اہمیت دے کر اور دوسروں کو بڑا بنا کر خوش ہوتا ۔یہ ہرگز ہرگز عام انسانی خوبی نہیں بلکہ یہ وہ خوبی ہے جس کا کا ذکر نہ زیادتی ہوگی کرنا۔وہ ہر بات کا آغاز جی بسم اللہ سے کیا کرتے ۔شکریہ کا جواب میں بھی جی بسم اللہ کہنا ان کا تکیہ کلام تھا ۔ان کی ایک کتاب کا نام بھی جی بسم اللہ ہے اور وہ عاجزی جو ایک صوفی کا خاصہ ہوتی ہے ان کے اندر بھی در آئی تھی ۔ ان کی کالموں کا مجموعہ عاجزانہ کے نام منظر عام آیا۔ ڈاکٹر اختر شمار نے ملتان سے اپنی ادبی زندگی کا آغاز کیا ،زندگی میں بہت جدوجہد کی اور پھر ایک پہچان اور شناخت حاصل کی۔زندگی میں ایمبیشس ہونا برا نہیں۔ عمر کے ایک حصے میں خوابوں اور خواہشوں کے دریا اسی طرح تلاطم خیز ہوتے ہیں سو ڈاکٹر اختر شمار بھی خواب اور خواہش کے ان تلاطم خیز راستوں سے گزرے پھر عارضی دنیا کی رائیگانی کے احساس نے انہیں تصوف کے قریب کردیا ،سو ایک صوفی اختر شمار ان کے وجود میںپلنے لگا جو اکثر شہر کے ہنگاموں سے باہر گمنام بابوں کے ڈیروں پر سکون تلاشتا۔زندگی ایک میٹامورفوسس کا سفر ہے۔ آپ ایک جگہ سے سفر شروع کرتے ہیں تو منزل تک پہنچتے پہنچتے آپ اپنے نئے خدوخال میں ڈھل چکے ہوتے ہیں۔9 محرم کو موت جب اختر شمار کو اپنے ساتھ لینے کے لیے آئی ہوگی تو وہ شاعر،ادیب ،لکھاری اور استاد کے کرداروں سے باہر نکل کے ایک صوفی کے کردار میں ڈھل چکے تھے۔ مجھے یقین ہے کہ ڈاکٹر اختر شمار نے موت کو دیکھ کر بھی خوشدلی سے کہا ہوگا " جی بسم اللہ"۔اور صوفیانہ خاموشی سے عدم کی راہ لی ہوگی۔

 

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز