136

حق و باطل کی تفہیم اور کربلا

واقعہ کربلا وہ درس گاہ ہے جس نے مادیت، ظاہریت اور وقتی مفاد کے پیچھے بھاگتی دنیا کے سامنے اعلیٰ انسانی قدروں،ضابطوں اور حق و باطل کے وہ معیار رکھے جن پر جیون کو تولا اور پرکھا جا سکتا ہے۔واقعہ کربلا سے یہ حقیقت کھلی کہ وقتی جیت،خوشی اور حکمرانی کیلئے ظلم،جبر اور نا انصافی کرنے والے جسم کی معیاد ختم ہونے کیساتھ ہی درگور ہو جاتے ہیں۔ انکااگر تذکرہ کیا بھی جاتا ہے تو باطل اور شر کی علامت کے طور پر۔ جب کہ زندگی کے سنہرے اصولوں کی پاسداری کرنیوالے وقت کے یزید کی شر انگیز طاقت سے سمجھوتہ نہیں کرتے بلکہ حق کا علم بلند رکھنا اپنا مقصد ِحیات بناتے ہوئے ہر طرح کی قربانی دینے پر تیار ہو جاتے ہیں۔یوں بے سروسامانی کے عالم میں رنج،دکھ،اذیتیں اور موت قبول کرنے والے تاریخ کے صفحوں اور دلوں میں ہمیشہ کے لئے امر ہو جاتے ہیں۔

آج دنیا حضرت امام حسینؓ کو حق اور خیر کی علامت کے طور پر جانتی ہے اور یزید کو باطل اور شر کے حوالے سے۔حسینیت اور یزیدیت دو مکتبۂ فکر ہیں۔دو راستے ہیں۔خیر اور شر کے معیارات ہیں۔حق اور باطل کی اصطلاحات ہیں۔جب تک دنیا قائم ہے خیر اور شر کی علامت یہ دونوں قوتیں دو راستوں کی طرح انسان کے سامنے نقشے کے طور پر موجود رہیں گی کہ رب کریم کو انسانی نفس اور اختیار کی آزمائش مطلوب ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ صاحبِ عقل و بصیرت کس راہ کو منتخب کرتا ہے۔

اتنی صدیوں بعد بھی اگر کربلا کا پیغام پوری طاقت کے ساتھ زندہ ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ واقعہ ہماری روحوں کی میراث بن چکا ہے۔وہ درد ہم سب نے بھی جھیلا ہے۔ غمِ حسین ؓاجتماعی غم ہے جو تمام انسانیت کے خمیر میں بسا ہوا ہے۔محرم کے دس دنوں میں بچوں کے لبوں سے نکلنے والی ہر سِسکی، بیماروں کی درد بھری بے بسی، ماؤں کی آنکھوں میں بین کرتی آہیں،بہنوں کی رداؤں میں مچلتے آنسو اور سب کچھ دیکھ کر رب کی رضا کے سامنے ڈٹے رہنے والے سردار کا دکھ کائنات کی ہر شے میں سرایت کر چکا ہے۔ کربلا کے مکینوں کا ہر لفظ اور عمل انسانیت کا رہنما اصول بن چکا ہے۔ شامِ غریباں کبھی ڈھلی ہی نہیں، ہمارے دلوں میں پکا مسکن بنا چکی ہے۔تاکہ ہم لمحہ لمحہ اسکے درد میں بھیگتے رہیں۔جلتے رہیں۔ ہماری انکھیں نم رہیں۔ہم ظلم کامقابلہ کرنے سے گھبرائیں نہ ہی مظلوم کا ساتھ دینے سے کترائیں۔

’’کرب و بلا‘‘ قیامت تک یہ میدان وجدانی اور الہامی تحریکوں کا رہنما بنا رہے گا۔ اس کا چپہ چپہ حق کیلئے جانیں قربان کرنے والوں کے حوصلوں کی گواہی دیتا رہے گا۔

شاعری کے اس عہد کا افتخار جناب افتخار عارف کی دلگداز تحریر ہم سب کے دل کی آواز ہے۔جسے پڑھتے ہوئے نہ صرف دل درد سے بھر جاتا ہے بلکہ انسان خود کو ان فضائوں میں موجود محسوس کرنے لگتا ہے جو ہمارے تخیل میں ہر وقت بسی رہتی ہیں۔

کربلا گواہی دے…فاطمہؓ کی بیٹی نے

باپ کی شجاعت کو…صبر سے بدل ڈالا

بھائی کی رفاقت کا…حق ادا کیا کیسا

کربلا گواہی دے…باب شہرِ حکمت سے

خیمہ گاہِ نصرت تک…محضر شہادت تک

کیسے کیسے نام آئے…کیا عجب مقام آئے

حق کی پاسداری کو…فرض جاننے والے

راہ حق میں کام آئے…ساتھ ساتھ تھی زینبؓ

کربلا گواہی دے…پھر وہ شام بھی آئی

جب بہن اکیلی تھی…اک سفر ہوا انجام

ریگ گرم مقتل پر…چند بے کفن لاشے

بھائیوں بھتیجوں کے…گودیوں کے پالوں کے

ساتھ چلنے والوں کے…ساتھ دینے والوں کے

کچھ جلے ہوئے خیمے…کچھ ڈرے ہوئے بچے

جن کا آسرا زینبؓ…جن کا حوصلہ زینبؓ

کربلا گواہی دے…مشہدِ مقدس سے

اک نیا سفر آغاز…جس کی ایک منزل شام

شام شامِ مظلومی…اور وہ خطبہ زینبؓ

پھر تو برسرِ دربار…پوچھنے لگی دنیا

ظلم کی کہانی میں…داستاں سرائوں کے

حاشیئے کہاں تک ہیں…سوچنے لگی دنیا

منبر سلونی کے…سلسلے کہاں تک ہیں

خیر کے تحفظ پر…گھر لٹانے والوں کے

حوصلے کہاں تک ہیں…وقت نے گواہی دی

جبر کے مقابل میں…صبر کا سبق زینبؓ

مصحفِ شہادت کا…آخری ورق زینبؓ

یہ جو درد محکم ہے…یہ بھی اک گواہی ہے

یہ جو آنکھ پُر نم ہے…یہ بھی اک گواہی ہے

یہ جو فرش ماتم ہے…یہ بھی اِک گواہی ہے

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

بشکریہ جنگ نیوزکالم