دانش کی باتیں

کابل میں گزشتہ چند دنوں سے اوپر نیچے دہماکوں سے کئی افراد لقمہ اجل ہو رہے ہیں ہمارے پڑوس میں اس قسم کے واقعات سے قدرتی بات ہے وطن عزیز میں بھی عام پبلک میں پریشا نی کی لہر پیدا ہو جاتی ہے لگتا یہ ہے ابھی افغانستان میں آزمائش کے دن ختم نہیں ہوئے اور بیرونی طاقتیں اسے سکھ کا سانس لینے نہیں دے رہی ہیں‘ ایک عرصے سے اس میں گریٹ گیم جاری ہے کبھی زار روس تو کبھی برطانیہ تو کبھی سوویٹ یونین تو کبھی امریکہ‘ان سب قوتوں نے اسے تختہ مشق بنا کر اس کے بخیے ادھیڑ دئیے ہیں‘لگ یہ رہا ہے کہ موجودہ صدی میں بھی اس کے حالات گزشتہ دو صدیوں کی حالت سے کچھ زیادہ مختلف نہ ہوں گے ان جملہ ہاے معترضہ کے بعد ذرا چند باتیں ان دانشوروں کے ارشادات کے بارے میں ہو جائیں جو انہوں نے بعض اہم معاملات کے بارے میں قلمبند کئے ہیں۔

 ہر روز دنیا کے کسی حصے میں کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ ضرور رونما ہو جاتا ہے کہ جس سے ثابت ہو تا ہے کہ بڑہے بوڑھوں کی باتوں میں کتنی زیادہ دانش تھی جن سے اگر ہم استفادہ کرتے اور ان میں پنہاں حکمت کی طرف خاطر خواہ توجہ دیتے تو کئی مسائل کا شکار ہونے سے بچ گئے ہوتے چلئے آ ج اس موضوع پر ہی دو چار باتیں کر لیتے ہیں‘ اگر ہم لوگوں کی صحت کا خیال نہیں رکھیں گے ہم کسی بھی شعبہ زندگی میں تھوڑی سی بھی خوشحالی نہیں لا سکیں گے اس لئے ہمیں ایک صحت مند لائف سٹائل کو ملک میں عام کرنا ہو گا اس ضمن میں ہمیں بیماریوں سے بچا ؤ کے طریقہ کار سے عوام کو روشناس کرانا ہوگا اور ہیلتھ کئیر سروسسز کو فروغ دینا ہو گا‘فطرت کے اصولوں کے ساتھ کہلواڑ نہیں کرنا چاہیے اور کبھی بھی اس بات پر خوشی نہیں منانی چاہیے کہ ہم کسی طور اس پر غالب آ گئے ہیں کیونکہ فطرت اپنا بدلہ ضرور لیتی ہے بنی نوع انسان اور فطرت کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور انسان کو فطرت کے ساتہ میل ملاپ رکھ کر آگے بڑھنا چاہیے۔

 اگر اس نے فطرت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جلد یا بدیر اسے نقصان کاسامنا ہو سکتا ہے یہ جو دنیا آج کل موسمیاتی تبدیلی سے نقصان اٹھا رہی ہے اس کی بھی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم ایک عرصے سے سبزہ زاروں اور درختوں کو کاٹ کاٹ کر کے سیمنٹ اور کنکریٹ کے جنگل بنا رہے ہیں‘ مختلف قسم کی زہریلی گیسوں کے اخراج نے ماحولیات کو اتنا آ لودہ کر دیا ہے کہ اس میں سانس لینا دشوار ہو گیا ہے۔ایک پرانی کہاوت ہے کہ بحر یا سمندر اس لئے چوڑ ا ہوتا ہے کہ اس میں کئی کئی دریا آ کر گرتے ہیں دیکھئے ناں کہ کشادگی نے جنیوا کو ایک ملٹی لیٹرل ڈپلومیسی کا مرکز بنا دیا ہے۔

 انسانیت کے فروغ پر مبنی بین الاقوامی سطح پر ہر شعبہ زندگی میں ادارے بنانے چاہئیں ریڈ کراس کے ادارے کی ہی مثال لے لیجئے گا کہ جو ڈیڑہ سو سال سے قائم ہے اور پھلتا پھولتا جا رہا ہے کیونکہ اس میں انسانی حقوق کے فروغ ایک دوسرے کے لئے ہمدردی کے جذبے کو فروغ دیا گیا ہے اور یہ ادارہ دنیا میں ہر اس مقام پر امداد پہنچانے کے لئے پہنچ جاتا ہے کہ جہاں انسانی امداد کی ضرورت ہوتی ہے کیا اس قسم کے اداروں کے قیام کو زندگی کے دوسرے شعبوں میں فروغ نہیں دیا جاسکتا؟ادھر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا 77واں سیشن13ستمبر سے شروع ہو رہا ہے۔یوکرین پر روس کے حملے سے پیدا شدہ صورت حال  اور امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر کے حالیہ دورہ تائیوان کے پس منظر  میں یہ سیشن کافی گرما گرمی  پیدا کر سکتا ہے  اس سیشن سے امریکہ کے صدر جو بائیڈن  بھی خطاب کریں گے۔

 

بشکریہ روزنامہ آج