242

ان پڑھ سرجن ڈاکٹر

کیپ ٹاون کی میڈیکل یونیورسٹی کو طبی دنیا میں ممتاز حیثیت حاصل ہے۔ دنیا کا پہلا بائی پاس آپریشن یہیں ہوا تھا‘ اس یونیورسٹی نے تین سال پہلے ایک سیاہ فام شخص کو ’’ماسٹر آف میڈیسن‘‘ کی اعزازی ڈگری سے نوازا ۔ 2003 کی ایک صبح مشہورعالمی سرجن پروفیسر ڈیوڈ ڈینٹ نے یونیورسٹی آڈیٹوریم میں اعلان کیاِ ، ’’ہم آج ایک ایسے شخص کو میڈیسن کی اعزازی ڈگری دے رہے ہیں۔

جس نے دنیا میں سب سے زیادہ سرجن پیدا کیے،جو ایک غیر معمولی استاد، اور سرجن ہے جو زندگی میں کبھی اسکول نہیں گیا تھا۔ جو انگریزی پڑھ سکتا تھا نہ لکھ سکتا تھا لیکن میڈیکل سائنس اور ڈاکٹرز کو حیران کر دیا۔

پروفیسر نے ہیملٹن کا نام لیا اورپورے ایڈیٹوریم نے کھڑے ہو کر اس کا استقبال کیا۔ یہ اس یونیورسٹی کی تاریخ کا سب سے بڑا استقبال تھا۔ ہیملٹن کیپ ٹاون کے ایک گاؤں میں پیدا ہوا۔ والدین چرواہے تھے، بچپن میں اس کاوالد بیمار ہو گیا تو وہ کیپ ٹاؤن آگیا۔ ان دنوں کیپ ٹاؤن یونیورسٹی میں تعمیرات جاری تھیں۔ وہ یہاں مزدوری کرنے لگا۔

تعمیرات کا سلسلہ ختم ہوا تووہ یونیورسٹی میں مالی بھرتی ہوگیا۔ پھر اس کی زندگی میں ایک موڑ آیا۔ پروفیسررابرٹ جوئز زرافے پرتحقیق کر رہے تھے کہ جب زرافہ پانی پینے کے لیے گردن جھکاتا ہے تو اسے غشی کا دورہ کیوں نہیں پڑتا، انھوں نے آپریشن ٹیبل پر ایک زرافہ لٹایا، اسے بے ہوش کیا،لیکن زرافے نے گردن ہلا دی ۔ پروفیسر آپریشن تھیٹر سے باہر آئے، سامنے ہیملٹن گھاس کاٹ رہا تھا، پروفیسر نے اسے بلایا اور زرافے کی گردن پکڑنے کا حکم دے دیا۔

ہیملٹن نے گردن پکڑ لی،یہ آپریشن آٹھ گھنٹے جاری رہا، ہیملٹن زرافے کی گردن تھام کر کھڑا رہا۔ دوسرے دن پروفیسر نے اسے پھر بلالیا، وہ آیا اور زرافے کی گردن پکڑ کر کھڑا ہوگیا، اس کے بعد یہ اس کی روٹین ہوگئی۔ وہ یونیورسٹی آتا، آٹھ دس گھنٹے آپریشن تھیٹر میں جانوروں کو پکڑتا اور اس کے بعد ٹینس کورٹ کی گھاس کاٹتا تھا۔

وہ کئی ماہ دوہرا کام کرتا رہا، اس نے اس ڈیوٹی کا اضافی معاوضہ طلب کیا اورنہ ہی شکایت کی۔ پروفیسر رابرٹ جوئز اس کی استقامت اور اخلاص سے متاثر ہوگیا اور اس نے اسے مالی سے ’’لیب اسسٹنٹ‘‘ بنا دیا۔وہ اب یونیورسٹی آتا، آپریشن تھیٹر پہنچتا اور سرجنوں کی مدد کرتا۔ 1958 میں اس کی زندگی میں دوسرا اہم موڑ آیا۔ اس سال ڈاکٹر برنارڈ یونیورسٹی آئے اور انھوں نے دل کی منتقلی کے آپریشن شروع کر دیے۔ ہیملٹن ان کا اسسٹنٹ بن گیا،ان آپریشنوں کے دوران وہ اسسٹنٹ سے ایڈیشنل سرجن بن گیا۔

اب ڈاکٹر آپریشن کرتے اور آپریشن کے بعد اسے ٹانکے لگانے کا فریضہ سونپ دیتے، وہ انتہائی شاندار ٹانکے لگاتا تھا، وہ سرجنوں سے زیادہ انسانی جسم کو سمجھنے لگا… چنانچہ بڑے ڈاکٹرز نے اسے جونیئر ڈاکٹرز کو سکھانے کی ذمے داری سونپ دی۔ وہ اب جونیئر ڈاکٹرز کو آپریشن کی تکنیکس سکھانے لگا۔ یوں وہ یونیورسٹی کی اہم ترین شخصیت بن گیا۔ 1970میں اس کی زندگی میں تیسرا موڑ آیا، اس سال جگر پر تحقیق شروع ہوئی تو اس نے آپریشن کے دوران جگر کی ایک ایسی شریان دریافت کی جس کی وجہ سے جگر کی منتقلی آسان ہوگئی۔ میڈیکل سائنس کے بڑے دماغوں حیران رہ گئے۔ وہ 50 برس کیپ ٹاؤن یونیورسٹی سے وابستہ رہا ۔

وہ میڈیکل ہسٹری کاپہلا ان پڑھ استاد اور پہلا ان پڑھ سرجن تھا جس نے زندگی میں تیس ہزار سرجنز کو ٹریننگ دی، وہ 2005 میں فوت ہوا تو اسے یونیورسٹی میں دفن کیاگیا اور اس کے بعد یونیورسٹی سے پاس آؤٹ ہونے والے سرجنز کے لیے لازم قرار دے دیا گیا وہ ڈگری لینے کے بعد اس کی قبر پر جائیں، تصویر بنوائیں۔

جس دن اسے زرافے کی گردن پکڑنے کے لیے آپریشن تھیٹر میں بلایا گیاتھا ، اگر وہ اس دن انکار کردیتا تووہ مرتے دم تک مالی رہتا۔یہ اس کی ایک ہاں اور آٹھ گھنٹے کی اضافی مشقت تھی جس نے اس کے لیے کامیابی کے دروازے کھول دیے اور وہ سرجنوں کا سرجن بن گیا۔ دنیا کی ہر جاب کا کوئی نہ کوئی کرائی ٹیریا ہوتا ہے اور یہ جاب صرف اس شخص کو ملتی ہے جو اس کرائی ٹیریا پر پورا اترتا ہے ۔جب کہ کام کا کوئی کرائی ٹیریا نہیں ہوتا۔

میں اگر آج چاہوں تو میں چند منٹوں میں دنیا کا کوئی بھی کام شروع کر سکتا ہوں اور دنیا کی کوئی طاقت مجھے اس کام سے باز نہیں رکھ سکے گی۔ ہیملٹن اس راز کو پا گیا تھا لہٰذا اس نے جاب کے بجائے کام کو فوقیت دی۔ یوں اس نے میڈیکل سائنس کی تاریخ بدل دی۔ اگر وہ سرجن کی جاب کے لیے اپلائی کرتا ،تو ،کیا وہ سرجن بن سکتا تھا؟ کبھی نہیں، لیکن اس نے کھرپہ نیچے رکھا، زرافے کی گردن تھامی اور سرجنوں کا سرجن بن گیا۔

بشکریہ ایکسپرس