157

میمز کے دور میں مزاح لکھنا مشکل کیوں ہے؟

اللہ کو جان دینی ہے، جتنا مشکل کام مزاح لکھنا ہے اتنا شاید بچہ جننا بھی نہیں۔

مجھے بچہ جننے کا کبھی تجربہ تو نہیں ہوا (اور مستقبل میں بھی کوئی ارادہ نہیں) البتہ مزاح میں منہ مارتا رہتا ہوں اسی لیے جب بھی یہ سوچ کر لکھنے بیٹھتا ہوں کہ آج شگفتہ سی تحریر لکھوں گا تو دانتوں تلے پسینہ آجاتا ہے۔ اردو ادب میں ایسی شگفتہ تحریر کو غالباً انشائیہ کہتے ہیں۔

انشائیہ لکھنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ لکھاری موضوع کی قید سے آزاد ہوجاتا ہے۔ اس پر کوئی بندش نہیں رہتی اور وہ  اپنے قلم کو کھلا چھوڑ دیتا ہے۔ یوں اس کے قلم سے غیررسمی انداز میں لکھی ہوئی تحریر برآمد ہوتی ہے جسے پڑھ کر تازگی اور شگفتگی کا احساس ہوتا ہے۔

ڈاکٹر وزیر آغا اپنے مضمون ’انشائیہ کیا ہے‘ میں لکھتے ہیں کہ انشائیے کا کام ’محض یہ ہے کہ چند لمحوں کے لیے زندگی کی سنجیدگی اور گہما گہمی سے قطع نظر کر کے ایک غیررسمی طریقہ کار اختیار کرے اور اپنے شخصی ردعمل کے اظہار سے ناظر کو اپنے حلقہ احباب میں شامل کرلے۔

دوسرے لفظوں میں تنقید یا تفسیر کا خالق اس افسر کی طرح ہے جو چُست اور تنگ سا لباس زیب تن کیے دفتری قواعد و ضوابط کے تحت اپنی کرسی پر بیٹھا احتساب اور تجزیے کے تمام مراحل سے گزرتا ہے اور انشائیہ کا خالق اس شخص کی طرح ہے جو دفتر سے چھٹی کے بعد اپنے گھر پہنچتا ہے، چست اور تنگ سا لباس اتار کر ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہن لیتا ہے اور ایک آرام دہ موڑھے پر نیم دراز ہوکر حقہ کی نَے ہاتھ میں لیے انتہائی بشاشت اور مسرت سے اپنے احباب سے مصروف گفتگو ہوجاتا ہے۔‘

اس مضمون میں آگے چل کر وزیر آغا صاحب نے انشائیے کے جو لوازمات گنوائے ہیں انہیں پورا کر کے کوئی مضمون لکھنا کسی شریف آدمی کے بس کی بات نہیں۔ یعنی انشائیہ ایسا ہو کہ پڑھنے والے کو مسرت بھی دے مگر نرا طنز بھی نہ ہو، کیونکہ مزاح سے سطحیت پیدا ہوتی ہے جبکہ اچھے انشائیے میں مزاح بھی ہونا چاہیے اور تعجب بھی۔ اس میں موضوع کی مرکزیت بھی برقرار رہے اور موضوع سے ہٹ کر بھی لکھاری اپنے تخیل کے گھوڑے دوڑاتا رہے۔

اب ان تمام شرائط کو پورا کرکے کوئی مضمون محض اِس لیے لکھا جائے کہ وہ انشائیہ کہلائے، دانشمندانہ بات نہیں۔ ویسے بھی خود کو انشائیہ نگار کہلوانا کچھ عجیب لگتا ہے۔ اِس سے کہیں بہتر ہے آپ خالص اور ٹھوس مزاح لکھیں اور ایسا لکھیں جیسا ابن انشا، کرنل محمد خان، شفیق الرحمن، پطرس اور یوسفی نے لکھا۔

ان جید مزاح نگاروں کی تحریریں ایسی سدا بہار ہیں کہ آپ جس وقت چاہیں جہاں سے مرضی نکال کر پڑھ لیں، قہقہہ لگانے پر مجبور ہو جائیں گے۔

یوسفی صاحب کی تحریر کا ایک نمونہ پیش ہے۔

یہ اُن کے مضمون ’بارے آلوکا کچھ بیان ہوجائے‘ کا ایک فُٹ نوٹ ہے: ’ایک دن ہم نے اس بے آرامی پر پُرزور احتجاج کیا تو ہوٹل کے قواعد و ضوابط کا پنسل سے لکھا ہوا ایک نسخہ ہمیں دکھایا گیا، جس کے سرورق پر ’ضابطہ فوجداری ہوٹل ہذا‘ تحریر تھا۔ اس کی دفعہ 9 کی رو سے فجر کی اذان کے بعد ’پسنجر‘ کو چارپائی پر سونے کا حق نہیں تھا۔ البتہ قریب المرگ مریض، زچہ اور یہود و نصاریٰ اس سے مستثنیٰ تھے۔ لیکن آگے چل کر دفعہ 28 (ب) نے ان سے بھی یہ مراعات چھین لی تھیں۔ اس کی رو سے زچہ اور قریب المرگ مریض کو زچگی اور موت سے تین دن پہلے تک ہوٹل میں آنے کی اجازت نہیں تھی۔ خلاف ورزی کرنے والوں کو بیروں کے حوالے کر دیا جائے گا۔‘

اس پائے کا اعلیٰ مزاح پڑھنے کے بعد بندہ سوچتا ہے کہ اگر اِس سطح کا مزاح تخلیق کر سکتے ہو تو ٹھیک ورنہ جو کام کر رہے ہو وہی کرتے رہو، اللہ اسی میں برکت دے گا۔

آج کل ’میمز‘ کا زمانہ ہے جس میں مزاح لکھنا اور بھی مشکل ہو گیا ہے۔ ادھر کوئی خبر آتی ہے اور ادھر اُس پر دھڑا دھڑ میمز بننی شروع ہو جاتی ہیں۔

اردو میں غالباً انہیں چٹکلے کہا جائے گا گو کہ میمز چٹکلوں سے کچھ مختلف چیز ہے۔

ڈاکٹر وزیر آغا زندہ ہوتے تو انشائیے کی طرح ’چٹکلے کے خدو خال‘ پر بھی ایک کتاب لکھ مارتے اور ہمیں بتاتے کہ چٹکلہ سازی کا سلسلہ نسب کیا ہے، اِس کی کیا پہچان ہے، انگریزی ادب میں اس کی کیا روایت ہے اور پھر ہمیں اردو چٹکلہ سازی کی پیش رفت سے آگاہ کرتے۔

اس سے ملتی جلتی ایک کتاب انہوں نے طنز و مزاح پر لکھی ہے جس کا نام ہے ’اردو ادب میں طنز و مزاح ہے۔‘ اس کتاب میں شامل مختلف مضامین کے عنوانات ملاحظہ ہوں: ہنسی کا عضویاتی مظاہرہ، ہنسی کے مختلف نظریے، تقلیب خندہ آوار وغیرہ۔

اس کے علاوہ انہوں نے اس کتاب میں ارسطو، تھامس ہابز، کانٹ، شوپنہار، برگساں اور فرائڈ کا بھی ذکر کیا ہے اور یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ غالب کو نظر انداز کر دیتے۔ پہلے انہوں نے غالب کے خطوط کو نثر کے حصے میں ڈالا اور پھر اُسے شاعری کے سیکشن میں ’غالب کا شاعرانہ مزاح‘ کے عنوان سے شامل کر کے بحث کی۔

نقادوں کی یہ بات مجھے بہت کھَلتی ہے کہ اردو ادب کی کوئی بھی صنف ہو انہوں نے کسی نہ کسی بہانے سے اُس میں غالب کو ضرور شامل کرنا ہوتا ہے حالانکہ غالب کو اُن کی پبلک ریلیشننگ کی قطعاً ضرورت نہیں۔

اگر آپ نے یہ تحریر یہاں تک پڑھ لی ہے تو میں آپ کی ہمت کی داد دیتا ہوں اور آپ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ آپ کا نام اب انشائیہ پڑھنے والوں کی فہرست میں شامل ہے۔

اس مضمون کو انشائیہ ثابت کرنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ میں نے یہ مضمون دفتر کا چُست اور تنگ لباس اتار کر ڈھیلا ڈھالا لباس پہن کر لکھا ہے۔ حقہ میرے پاس نہیں تھا سو میں نے سگریٹ سے کام چلایا ہے اور موڑھے پر بیٹھنے کی بجائے گود میں لیپ ٹاپ لے کر صوفے پر بیٹھ کر لکھا ہے۔

اس مضمون کے انشائیہ ہونے کا آخری ثبوت یہ ہے کہ اسے نا مکمل صورت میں چھوڑ دیا گیا ہے تاکہ قاری اپنے تخیل سے کام لے کر اسے مکمل کرلے کیونکہ اگر سب کچھ لکھاری نے ہی کرنا ہے تو پھر انشائیے کا کیا فائدہ؟

بشکریہ جنگ نیوزکالم