143

صدیوں کے عذاب اتر رہے تھے

قراردادِ پاکستان سے قیامِ پاکستان تک سنا، دیکھا اور پڑھا کہ انگریز ہندوستان کی اتنی دولت سمیٹ کر لے گئے، جتنی کہ سارے مغل بادشاہوں نے بھی نہیں سمیٹی۔ قیام پاکستان سے لے کر 82سال کی عمر تک دیکھا کہ ملک میں پارلیمنٹ کے نام پر کھوکھے، انصاف کے نام پرمکھوٹےاور ملک کو ہر زمانے میں بچانے کے لئے مارشل لا لگاتے زعما، گلیوں میں ننھے ہاتھوں کو بھیک مانگتے، عورتوں اور بچوں کو چیتھڑوں کی طرح اڑاتے وہ لوگ جو الیکشن کی منڈی میں سب سے اونچی بولی لگاتے، اِن ساری ستم رانیوں کے باوجود، خدا نے یہ ملک ڈوبنے سے بچایا،لیکن اب لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کہیں مسلسل بارش کی شکل میں عذاب، کہیں جنگل تک جلا دینے والی گرمی ہے، کہیں کشت و خوں اور توبہ کرنے کے لئے صرف بھوکے ،غریب اور آپس کی جنگوں میں گھروں سے اجڑے لوگ بار بار ربِ کریم کو آواز دیتے، جوانی سے بڑھاپے کی دہلیز پہ، بے رونق آنکھیں پھاڑے، لب بستہ لوگ اور جوش اورابلتے خون میں بے چین نوجوان جن کو نہ منزل کی خبر نہ رہنما کی۔ دیوانگی میں ڈھول بجاتے، کبھی اس ٹولی میں کبھی اُس ٹولی میں ہو حق کرتے، نوکریاں حاصل کرنے کے لئے بے مقصد رُلتے نوجوان۔ یہ ہے مقدر، ساری دنیا کی 46فیصد آبادی کا۔

اس سے پہلے کہ میرے قلم سے بھی خون ٹپکنے لگے۔ میں آپ سب کو حرف کی حرمت کی قسم دیتے ہوئے، کچھ کتابوں کی باتیں کرتی ہوں۔ ’’بات ابھی باقی ہے‘‘۔ فریدہ حفیظ جو چالیس برس تک صحافت کرتی رہی۔ اب وہ اپنے اندوختہ کی جانب رخ کرتی ہے۔ کہیں یادیں، کہیں ناول کا ایک باب، کہیں ادھوری کہانیاں، کہیں ان لوگوں کی کتابوں پر تبصرے، جو یادداشت سے محو ہوگئے ہیں، یہ سب پیلے پڑے ہوئے کاغذ، آدھے مٹے الفاظ اور لکھتے رہنے کی خواہش کا دیباچہ پڑھنے والوں کو ماضی کی جانب لوٹانا چاہتا ہے، جہاں جاگتی ہنستی بستی نسبت روڈ، مشرق کے دفتر میں بیٹھے امین اصلاحی، انتظار حسین، حکیم حبیب اشعر اور بغل کی الماری میں ٹھنسی ہوئی کتابیں، فریدہ کو کہانی لکھنے کا ہنر سکھاتی اور بولتے انتظار حسین، بالکل کہانی کی طرح بولتے ۔ورق پلٹتی ہوں، سامنے نصرت مسعود اپنا شعری مجموعہ لئے کھڑی ہے۔ سیدھی مانگ، سر پر دوپٹہ اور ہمیشہ اپنے ہمسفر مسعود کے ساتھ جب مجھے دیر سے مجموعہ شائع ہونے کی وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہے ہاں بہت زود گو نہیں ہیں پھر بھی خاموش تو نہیں ہیں ہم۔ میں مجموعہ کھولتی ہوں اور جب اس مصرعے پر پہنچتی ہوں مرے ہر لفظ کی مجھ سے وضاحت چاہتا ہے۔ پھر میرا اور فریدہ کا ماضی بھی سامنے آکھڑا ہوتا ہے۔ اب احمد فراز بول اٹھا اور اس کے بعد میں سو سو وضاحتیں کرتی۔ شاعری اور زندگی ایسے لمحات بہت صبر آمیز ہوتے ہیں۔ نصرت نے جتنی گھر اور باہر کی دنیا مسعود اور اپنی آنکھوں سے مل کر دیکھی۔ پھر بھی لکھتی ہے ’’ایک ڈر ہے جو مرے پر نہیں کھلنے دیتا‘‘۔ مومن کے ایک شعر پر غالب فدا ہوئے تھے۔ مجھے فنا کرنے کو نصرت کی نظم ترکہ کھل گئی۔ نظم کیا کھلی میرے اندر، میرے دماغ اور میرے گھٹنوں نے اپنی اپنی کتھا سنانی شروع کردی۔ میرے ڈاکٹر نے سن کر کہا ’’آپ نہ ٹی وی دیکھیں، نہ اخبار پڑھیں جس میں روز یہ خبر ہوتی ہے کہ کیسے بوڑھے باپ، بوڑھی ماں کو بوجھ سمجھ کر سڑک کنارے چھوڑ کر، خود ایدھی کو فون کردیا گیا کہ ’’فلاں جگہ پر ایک بڑھیا بیٹھی رو رہی ہے۔ اُسے جاکر اٹھالیں۔‘‘ نصرت کا مجموعہ پھر اٹھا کر فال نکالتی ہوں ’’پھر ماں کا یقین‘‘ نظم سامنے آجاتی ہے۔ اس نے نظمیں بہت کم لکھی ہیں۔ غزلیں بھی سنبھل سنبھل کر بے معنی جذباتیت سے گریزاں رہتی ہے۔ کبھی کبھی دوسرے مصرعے سے چونکا دیتی ہے۔

اس وقت کوئٹہ کیا سارا بلوچستان ہی بارشوں کے ہاتھوں ریت کی جگہ پانی کی ان شوریدہ لہروں کی زد میں ہے جہاں جانور، گاڑیاں، عمارتیں، فصلیں، ڈیم تک خود کو بچا نہیں پا رہے۔ محسن شکیل نے اس منظر سے پہلے بھی اپنے علاقے کی بے بسی کو بند معاشرے کی ادکھلی کھڑکی سے تعبیر کرتے ہوئے نظمـ’ الجھے لوگوں کی نظم‘ کا عنوان دیا ہے۔ وہ چونکہ بینکر ہے اس لئے جی۔ ایٹ کانفرنس کی اشک شوئی کو بے نقاب کرتا ہے۔ اور بڑی بات یہ ہے کہ بلوچستان کے پرکھوں، شاعروں اور سرداری نظام کے خلاف لڑتے مرتے لوگوں کا المیہ بھی تحریر کیا ہے۔ محسن غزل میں اپنی زمین سے وابستہ اصطلاحوں کو فراموش نہیں کرتا۔ اپنے زمانے کے دوغلے معاشرے کو اُکتا کر بار بار بیان کرتا ہے کہ ’’بدلنا چاہتا ہے، کون اس خرابے کو۔ وہ شاعر جو کہتا تھا’’ برف گرتی نہیں اب مرے شہر میں‘‘۔ اس نے دیکھا کہ اس دفعہ کے سیلاب نے جھونپڑیاں کیا، مٹی کی دیواریں کیا، محل نما گھروں میں رہتے لوگ، اس عالم میں بھی سیاست سیاست کھیل رہے ہیں۔ بلوچستان کیا سارے ملک میں سیاست کی شطرنج چل رہی ہے۔ پیادے ہی پیادے ہیں۔ نہ بادشاہ نہ وزیر۔ محسن ابھی دیکھ رہی ہوں کھلے آسمان تلے، اوپر سے بارش اور نیچے پانی۔ ہزاروں عورتیں اور بچے سارے بلوچستان میں مایوس بیٹھے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ صوبائی حکومت میں جان نہیں اور فوج اپنے کھانے میں سے کس کو اور کس قدر کھلائے گی۔ وفاقی حکومت کو اکیلا شخص کب تک چلائے گا۔ وہاں بھی زلزلے بہت ہیں۔

نجیبہ عارف ہماری بڑی شاعرہ، افسانہ نگار، تنقید کے علاوہ روحانیات ان کا مسلک نہیں، پھر بھی اس صفت سے آراستہ ہیں اور اپنی تحریروں میں مرشدوں کا حوالہ بھی دیتی ہیں مگر تازہ افسانوں کی کتاب میں اس نے اپنے بھی کچھ بھولے ہوئےاور کچھ داستان ہم سفری بیان کرتے ہوئے ہمارے پرانے محلوں میں چوک پر لگے نلکوں کو یاد کیا ہے، جہاں سے پورا محلہ پانی بھرتا، مرد اور بچے تو اس کے نیچے بیٹھ کر نہاتے، بزرگ عورتیں وہاں بیٹھ کر کپڑے دھوتیں۔ کیا محلہ داری تھی۔ ایک دوسرے کا حال پوچھتے، ایک دوسرے کے کھانوں کا ذائقہ چکھتے اور کبھی دنگا فساد نہ ہوتا تھا۔ ان کہانیوں میں بھی پیری مریدی اور روحانیت کی جھلک پڑتی ہے۔ وہ بڑی اسکالر ہے۔ اردو انگریزی میں کبھی کبھی بہت اچھے مقالے لکھتی ہے۔افضال نوید رہتا تو امریکہ میں ہے۔ مگر اس کا دل، اس کا بیانیہ، اس کی شعری لغت ، پاکستانیت لئے غزلوں کے مجموعے در مجموعے ہمیں اُسے یاد کرنے کا وسیلہ بنتے ہیں۔

سیاست اور عدالت سے گریز کا یہ منظر نامہ، آپ کے لئے کتابوں کا خزانہ کہ لوگوں کو میں کتاب کی جانب واپس لائوں۔

بشکریہ جنگ نیوزکالم