112

بلوچستان کے سیلاب زدگان کا المیہ

’’خدارا ہمیں کھانے پینے کی اشیا فراہم کی جائیں۔ اگر سرکاری سطح پر فراہمی ممکن نہیں تو ہم خود پیسہ دینے کے لیے بھی تیار ہیں۔‘‘ اخباری اطلاعات کے مطابق بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے علاقے اوڑکی سے تعلق رکھنے والے خیر محمد بلوچ پیر کے روز دو بجے سے اپنے خاندان کی خواتین اور بچوں سمیت سیلابی ریلے میں پھنسے ہوئے ہیں اور 48 گھنٹے سے زیادہ وقت گزر جانے کے باوجود تاحال امداد کے منتظر ہیں۔ بلوچستان میں شدیدحالیہ بارشوں سے خضدار، لسبیلہ اور جھل مگسی سمیت آس پاس کے علاقوں میں سیلابی صورتحال ہے۔ لسبیلہ میں صورتحال سنگین ہے جہاں کئی دیہی علاقے اس وقت پانی میں گھرے ہوئے ہیں۔پیر سے متعدد ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر ہو رہی ہیں جن میںسیلاب میں پھنسے لوگ مدد کی اپیل کر رہے ہیں۔ایک ایسی ہی ویڈیو میں ایک خاندان جس میں خواتین اور نوعمر بچے بھی شامل ہیں، اپنی جھگی کی چھت پر بیٹھا ہے اور خاندان کے سربراہ قرآن مجید اٹھائے مدد کی اپیل کر رہے ہیں۔حکومت کی جانب سے ہیلی کاپٹر سے ریسکیو آپریشن کا اعلان کیا گیا تاہم بدھ تک یہ شروع نہیں ہو سکا تھا۔ ایک متاثرہ شخص نے فون پر برطانوی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اوڑکی کے علاقے میں ان کے خاندان کے 100 کے قریب لوگ سیلاب میں پھنسے ہوئے ہیں اور سیلابی پانی کی وجہ سے ان کے لیے باہر نکلنا ممکن نہیں۔

بیلہ کے رہائشی عاصم لاسی کا کہنا ہے کہ’’ شہ ندی کی صورتحال سنگین ہے، یہاں سے یہ سارا پانی اوڑکی کی طرف جاتا ہے۔وہاں سینکڑوں لوگ پھنسے ہوئے ہیں، جن سے کوئی رابطہ نہیں ہو رہا۔ کل جب موبائل نیٹ ورک کام کر رہا تھا تو متاثرین رابطے میں تھے۔ اس وقت تو نیٹ ورک بھی کام نہیں کر رہا۔‘‘سیلاب سے رابطہ سڑکیں متاثر ہوئی ہیں جن سے کیچ، گوادر، لسبیلہ، جھل مگسی اور کچھی میں نہ صرف متعدد علاقوں کے رابطے، ایک دوسرے سے سڑکوں اور پلوں کو پہنچنے والے نقصان کے باعث منقطع ہوئے بلکہ ضلع لسبیلہ میں سیلابی ریلوں کی وجہ سے بلوچستان کا کراچی سے بھی زمینی رابطہ منقطع ہوگیاہے۔کراچی سے کوئٹہ اور گوادر و تربت آمد و رفت معطل ہے۔

خضدار رتو ڈیرو سی پیک سڑک بھی بارشوں سے محفوظ نہیں جبکہ ڈپٹی کمشنر خضدار کے مطابق سڑک کو بحال کرنے میں ایک ہفتے سے زیادہ کا وقت درکار ہو گا۔کراچی سے بلوچستان کے دیگر علاقوں کی طرف جانے والی کوسٹرز، کاروں کے مسافر اور گڈز ٹرانسپورٹر اس وقت اوتھل، خضدار اورہنگول میں پھنسے ہوئے ہیں، جن کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ ان علاقوں میں کھانے پینے کی اشیا بھی ختم ہو چکی ہیں۔قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے کی جانب سے 26جولائی تک جاری کیے جانے والے اعدادوشمار کے مطابق 13جون سے اب تک بارش اور سیلابی ریلوں سے مجموعی طور پر 105لوگ جاں بحق ہوئے جن میں 41مرد، 30 خواتین اور 34بچے شامل ہیں۔ چھ ہزار گھر مکمل اور جزوی طور پر متاثر ہوئے جبکہ دو لاکھ ایکڑ اراضی پر فصلوں کو بھی نقصان پہنچا۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ جہاں وفاقی حکومت کے امدادی کام کہیں نظر نہیں آرہے وہاں صوبائی حکومت کی کارکردگی بھی صفر ہے ،بلوچستان حکومت کی ترجمان فرح عظیم شاہ اسلا م آباد میں بیٹھ کر حکومت کی کارکردگی بیان کررہی ہیں  جبکہ بےیارومددگار لوگ حالات کے رحم وکرم پر ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف بھی کہیں نظر نہیں آ رہے۔ملک کے دیگر اداروں کی بھی ماضی کی طرح کوئی کارکردگی تاحال نظر نہیں آسکی ۔اخباری اطلاعات کے مطابق لسبیلہ میں متعدد دیہات زیر آب آ چکے ہیں۔ لوگ مدد کے منتظر ہیں ، سڑکوں کا نام و نشان مٹ چکا ہے ۔ لسبیلہ کے تقریباً تمام شہروں اور علاقوں کا کوئٹہ اور کراچی سے رابطہ کٹ چکا ہے۔ لوگ متاثرہ گاؤں اور علاقے چھوڑنا چاہتے ہیں مگر چھوڑ نہیں پا رہے۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ اتحادی حکومت تو حکومتی مزے لےرہی ہے ،ان کے وزیر بھلا کسی اور جانب کہاں دیکھ سکتے ہیں ۔ن لیگ والے اور چا ر وزارتیں اپنی جماعت کو دلوانے والے مولانا صاحب کہہ رہے ہیں کہ ہم چیلنج قبول کرتے ہوئے حکومت کی نیا پار لگانے کی کوشش کررہے ہیں، ان سے گزارش ہے کہ وہ ویڈیو دیکھئے جس میں ایک خاندان جس میں خواتین اور نوعمر بچے بھی شامل ہیں اپنی جھگی کی چھت پر بیٹھے ہیں اور خاندان کا سربراہ قرآن مجید اٹھائے مدد کی اپیل کر رہا ہے لیکن مدد کو کوئی نہیں آرہا۔ زرداری صاحب سب پر بھاری ہیں مگر ان کی جانب سے بھی کوئی پھرتی دکھائی نہیں دے رہی اور نہ ہی وہ اس سلسلے میں میاں نوازشریف اور وزیراعظم ودیگر سے اُسی طرح رابطے میں ہیں جس طرح وہ لوٹوں کی خریداری کے وقت ہوتے ہیں ۔ خیر وزیراعظم نے بلوچستان پہنچ کر وعدہ کیا ہے کہ وہ اس وقت تک بلوچستان سے نہیں جائیں گے جب تک متاثرین کی مشکلات ختم نہیں ہوجاتیں،دیکھتے ہیں کہ اس وعدے کا حشر بھی حسبِ سابق ہوتاہے یا واقعتاً ان بے کسوں کی اشک شوئی ہوتی ہے؟ صرف لوٹوں پر توجہ دینے والےاتحادی حکمرانوں پہ افسوس ہی کیا جاسکتا ہے!

بشکریہ جنگ نیوزکالم