142

لیہ میں بارشوں سے ہونے والی تباہی ۔کیا ڈیزاسٹر منیجمنٹ کا وجود بھی ہے

کسی دور میں بستی کنجال کے مکیں دہائی دیتے تھے کہ نشیبی علاقہ کی تاریخی بستی کنجال صفحہ ہسٹی سے مٹ جائے گی ہم نے وہ تماشا دیکھا پھر موضع راکھواں کے رہنے والے اسی طرح کی دہائی دیتے رہے آج موضع راکھواں تو صفحہ ہستی سے مٹ چکا لیکن لیہ میں نشیبی علاقہ  جات  زیر آب آ چکے ہیں۔ لوگ مدد کے منتظر ہیں مگر سڑکوں کا نام و نشان مٹ چکا ہے اور سیلابی پانی میں گھرے کئی لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔‘ ’مسلسل بارشوں نے تباہی مچائی ہوئی ہے۔لیہ  کے تقریباً تمام شہروں اور علاقوں میں ہونے والی تباہی نے لوگوں کو شدید مشکلات اور انجانے خوف سے دوچار کردیا ہے۔ نشیبی علاقہ کے لوگ متاثرہ علاقے چھوڑنا چاہتے ہیں مگر چھوڑ نہیں پا رہے۔ لیہ کے نشیب میں فوری طور پر ایک بڑا امدادی آپریشن شروع کرنا ناگزیر ہے کیونکہ حالات بہت ہی سنگین دکھائی دے رہے ہیں۔حالیہ بارشوں کے بعد اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ پاکستان میں اس سے قبل طوفانی بارشوں نے تباہی نہیں مچائی جن حالیہ دنوں میں مچائی ہے،تحصیل کروڑ کے نشیبی علاقہ کے ایک دوست نے بتایا کہ گذشتہ روز دریائے سندھ کا پانی ہمارے گھروں میں داخل ہوا۔ رات کے اندھیرے میں بیوی بچوں کے ساتھ گھر چھوڑنا پڑا۔ گھر کا سارا سامان تباہ ہو چکا ہے۔‘ ’میرا پورا گھر تباہ ہو چکا ہے۔ صرف میرا ہی نہیں کئی لوگوں کے گھروں کو جزوی اور مکمل نقصان پہنچا ہے۔ کئی لوگ کھانے پینے اور بنیادی ضرورت کی اشیا کے محتاج ہو چکے ہیں۔‘ملک بھر میں اس تباہی کا سبب حالیہ مون سون کی بارشوں کو قرار دیا جا رہا ہے۔محکمہ موسمیات کے مطابق رواں ماہ کی 26 تاریخ تک پاکستان میں مجموعی طور پر اوسط سے 192 فیصد زیادہ بارشیں ہوئی ہیں۔ پاکستان میں جولائی میں اوسط بارشیں 51.5 ملی میٹر ہوتی ہیں تاہم اس سال یہ 150.1 ملی میٹر رہی ہیں۔ اوسط بارشیں لیہ خصوصاًکروڑ کے نشیبی علاقہ جات میں 24.4 ملی میٹر ہوتی ہیں جبکہ اس سال جولائی میں اب تک 132.4ملی میٹر بارش ہو چکی ہے جو کہ 443 فیصد زیادہ ہے۔جبکہ لیہ میں عموماً اوسط بارش گیارہ ملی میٹر ہوتی ہے جبکہ اس سال اب تک تیرہ ملی میٹر بارش ہو چکی ہے جو کہ 17 فیصد زائد ہے۔اس صورتحال کے شکار صرف یہ چند لوگ ہی نہیں یہ تعداد اندازوں سے بہت زیادہ ہے  قدرتی آفات سے نمٹنے والے ادارے این ڈی ایم اے عضو معطل ہوچکے ہیں لیہ میں تو شاید ان کا وجود تک نہیں ہے پورے ضلع میں  میں جانی و مالی نقصانات کی اطلاعات مل رہی ہیں مگر یہ ادارہ ٹس سے مس نہیں ہوتا اس ادارے نے عام دنوں میں کبھی یہ رپورٹ بنا کر حکام بالا تک نہیں بھیجی کہ کونسی جگہ پر انسانیت کو خطرہ ہے یا فصلات اورمویشی تباہی سے دوچار ہونے والے ہیں۔ 14جون سے لے کر 26 جولائی کے دوران پورے ملک میں سیلابی ریلوں اور پانی کی وجہ سے پیش آنے والے حادثات میں مجموعی طور پر 312 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جس میں 121 بچے، 136 خواتین اور 56 مرد شامل ہیں۔ مجموعی طور پر لگ بھگ 298 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
ایسے ہی غیر معمولی بارشوں اور سیلاب سے ہونے والی تباہی کی تفصیلات سامنے آنا شروع ہوئیں، طوفان سے متاثرہ شادن لنڈ پروٹیکشن ڈائک سے 6 افراد کے لاپتہ ہونے کی اطلاع ملی۔ترجمان ریسکیو کے مطابق  ڈی جی خان میں 13 مقامات پر 19 کشتیاں اور 225 ریسکیور متعین ہیں،ڈی جی خاں میں مختلف مقامات پر 5 میڈیکل بھی لگائے گے ہیں، ڈی جی خان سے 930 لوگوں کا محفوظ انخلاء اور 2809 لوگوں کو ٹرانسپورٹ کیا گیا ہے، ڈی جی خان میں 06 ڈیڈ باڈیز کو بھی لواحقین کے حوالے کیا جا چکا ہے۔ترجمان ریسکیو کا کہنا ہے کہ راجن پور کے گیارہ مقامات پر 27 کشتیاں اور 88 ریسکیور متعین ہیں، راجن پور میں مختلف مقامات پر 8 میڈیکل بھی لگائے گے ہیں، راجن پور سے 1460 لوگوں کا محفوظ انخلاء اور 1568 لوگوں کو ٹرانسپورٹ کیا گیا ہے، راجن پور میں 13 لوگوں کو موقع پہ فرسٹ ایڈ اور ایک سیریس کو شفٹ کیا گیا ہے۔ڈی جی ریسکیو  پنجاب کی ہدایت پر راجن پور اور ڈی جی خان میں فلڈ ریسکیو آپریشن جاری ہے۔سیلاب مہنگی ترین اور اکثر آنے والی قدرتی تباہیوں میں سے ایک ہے۔ جن حالات کی وجہ سے سیلاب  آتے ہیں ان میں شدیدیا زمین کو سیراب کرنے والی کئی گھنٹوں یا دنوں تک کی مسلسل بارشیں شامل ہیں۔ اچانک سیلاب  کسی ندی یا کم بلندی کے علاقے  میں پانی کے اچانک چڑھاؤ کی وجہ سے آتے ہیں۔ ہمارے ضلع کے نمائندگان میں سے سوائے سید رفاقت علی گیلانی کے کسی نے حکام بالا کے سامنے سیلاب سے متاثرہ افراد کے حق میں آواز نہیں اُٹھائی چوہدری پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ پنجاب ہیں امید ہے ماضی کی طرح وہ جنوبی پنجاب کے اضلاع کے عوام کی مدد فرمائیں گے

بشکریہ اردو کالمز