213

شنگھائی تعاون تنظیم اور علاقائی تعاون

28 اور 29 جولائی کو ازبکستان کے شہر تاشقند میں منعقد ہو نے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے کونسل آف فارن منسٹرز کے اِجلاس میں تنظیم کے وزرائے خارجہ نے شنگھائی تعاون تنظیم کے قیام کے 20 سال بعد درپیش اہم موضوعات پر تبادلہ خیال کیا ہے، جن میں اِس کی رکنیت میں توسیع، ایس سی او سیکرٹریٹ کے میکانزم میں بہتری، اور SCO کا عالمی اقتصادی اور سیاسی پیش رفت اور SCO ممالک کے لیے چیلنجز کے بارے میں موقف۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ نے سماجی و اقتصادی تعاون کے مختلف شعبوں سے متعلق تجاویز کی توثیق کرنے والے سولہ فیصلوں پر دستخط کیے اور حیاتیاتی ہتھیاروں کے کنونشن کو مضبوط بنانے سے متعلق مشترکہ بیان کو اپنایا ہے۔ افغانستان کی مخدوش صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے شنگھائی تعاون تنظیم کے وزراء کو یاد دلایا ہے کہ افغانستان کے پڑوسی ہونے کے ناطے تمام رکن ممالک کی افغانستان میں پائیدار امن اور اِستحکام انکی ذمہ داری ہے۔ اس لیے افغان عوام کو درپیش انسانی اور معاشی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے مشترکہ نقطہ نظر تلاش کرنا ضروری ہے۔ افغانستان میں جاری بحران کو ختم کرنے کے لیے علاقائی تعاون، وقت کا اہم تقاضا ہے۔ اِس تناظر میں شنگھائی تعاون تنظیم کا افغانستان میں زیادہ فعال ہونا ضروری ہے۔ اور یہ اَیس سی او کو موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ علاقائی تعاون کے اپنے خواب کو تعبیر دے اور افغانستان میں استحکام لانے میں فعال کردار ادا کرے، جو مغربی ایشیاء اور وسطی ایشیاء کے لیے فائدہ مند ہے۔ شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن (ایس سی او) نیو یارک اور واشنگٹن پر 9/11 کے حملوں سے چند ہفتوں پہلے قائم کی گئی تھی، یوروشین کے وسیع خطے میں سلامتی کو یقینی بنانے اور استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے کثیرالجہتی ایسوسی ایشن کے طور پر تجارت، نیز ثقافتی اور انسانی ہمدردی میں تعاون اِس کے بنیادی مقاصد ہیں۔ اِس کے بانی رہنما مشرق کی دو بڑی طاقتیں ہیں یعنی روس اور چین۔ اس کے دیگر ابتدائی ارکان ازبکستان، تاجکستان، کرغیزستان اور قازقستان، افغانستان کے شمال اور شمال مشرق میں تھے۔ 8-9 جون 2017 کو قازقستان کے شہر آستانہ میں ایس سی او کے رکن ممالک کے تاریخی سربراہی اجلاس کے موقع پر، پاکستان اور بھارت کو مکمل رکنیت دی گئی جبکہ اِیران کو 17 ستمبر 2021 کو مکمل رکنیت دی گئی ہے۔ افغانستان، بیلاروس اور منگولیا مبصر ہیں۔ ایس سی او کے متعدد ڈائیلاگ پارٹنرز ہیں۔ ان میں پڑوسی قا قسس کے علاقے آرمینیا اور آذربائیجان اور مغرب کی جانب ایک قدم مزید آگے ترکی بھی ڈائیلاگ پارٹنرز میں شامل ہے۔ برصغیر سے نیپال اور سری لنکا اور جنوب مشرقی ایشیا سے کمبوڈیا بھی مکالمے کے شراکت دار ہیں۔ مزید یہ کہ ستمبر 2021 میں تاجکستان کے شہر دوشنبے میں منعقد ہو نے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے 20 ویں سربراہی اِجلاس میں سعودی عرب ، قطر اور مصر کو بھی ڈائیلاگ پارٹنر کا درجہ دیا گیا ہے۔ البتہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ترکمانستان، جسکی اَفغانستان کے ساتھ 800 کلومیٹر اور ایران کے ساتھ 1150 کلومیٹر سرحد ہے، ایس سی او کا رکن نہیں ہے کیونکہ ترکمانستان نے کسی بھی قسم کے دفاعی اِتحاد میں غیر شمولیت کو اپنی خارجہ پالیسی کا اہم ستون بنایا ہوا ہے۔ اَلبتہ شنگھائی تعاون کی تنظیم میں ترکمانستان کی عدم شمولیت سے علاقائی رابطے میں ایک چھوٹا سا خلا پیدا ضرور پیدا ہوتا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم سے پہلے "شنگھائی فائیو" کے نام سے اِیک تنظیم وجود رکھتی تھی جس میں روس، چین، قازقستان، کرغیزستان اور تاجکستان شامل تھے جس میں تین سابق سوویت ریاستیں، چین کے ساتھ ایک طویل سرحد مشترک رکھتی ہیں۔ شنگھائی فائیو کا مقصد اِس سرحد کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے وسطی ایشیائی میں امریکی مداخلت کو روکنے کے لیے چین روس مشترکہ دلچسپی کو بڑھانا تھا۔ ماسکو اور بیجنگ بھی افغانستان میں امریکی فوجی موجودگی اور وسطی ایشیا پر اس کے ممکنہ اثرات سے نا خوش تھے۔ اب افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا سے ماسکو اور بیجنگ دونوں خوش ہیں۔ شنگھائی تعاون کی تنظیم علاقائی تعاون کو بڑھانے میں کیا کردار ادا کر سکتی ہے؟ کیا شنگھائی تعاون تنظیم افغانستان کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے مشترکہ علاقائی نقطہ نظر اختیار کر سکے گی؟ اگرچہ بظاہر یہ ایک مشکل کام نہیں معلوم ہوتا لیکن کئی رکاوٹیں اور چیلنجز ایسے ہیں جن کا سامنا ایس سی او کر سکتی ہے۔ افغانستان کے بارے میں ایس سی او کے رابطہ گروپ کا اِجلاس 14 جولائی 2021 کو تاجکستان میں ہوا تھا جس میں افغان مسئلے پر تبادلہ خیال کیا گیا اور جس میں افغانستان کی سماجی و اقتصادی بحالی کو فروغ دینے کے لیے ازبکستان کے عملی اقدامات کے نئے مجوزہ منصوبے شامل تھے۔ دلچسپ اَمر یہ ہے کہ افغانستان 2015 سے کوشش کرنے کے باوجود SCO کی مکمل رکنیت حاصل نہیں کرسکا۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے وسطی ایشیائی اراکین کے آپس میں جھگڑے ہیں، اور انہوں نے اَپنے مشترکہ علاقائی سلامتی کے چیلنجوں کے لیے اجتماعی انداز اپنانے کے لیے جدوجہد کی ہے۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ماضی میں طالبان کے متعلق ان کے مختلف مؤقف رہے ہیں۔ اَگرچہ SCO کے بینر تلے فوجی اعتماد سازی کے اقدامات میں اضافہ ہوا ہے، روس کے پاس خطے کے لیے اپنی سیکیورٹی تنظیم تھی، جسے سینٹرل سیکیورٹی ٹریٹی آرگنائزیشن ((CSTO کہا جاتا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے تین ارکان قازقستان، کرغزستان اور تاجکستان ، آرمینیا اور بیلاروس کے ساتھ ساتھ CSTO کے رکن ہیں۔ روس اپنے آپ کو سابق سوویت یونین کے علاقوں کے واحد محافظ کے طور پر دیکھتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ وہ چین کے ساتھ اس کردار کو بانٹنے کے لیے تیار نہ ہو، ہم آہنگی کے لیے "ہاں"، لیکن "چین،روسی سیکورٹی ڈائرکی (diarchy) " کے لیے "نہیں"۔ ماسکو بھی شنگھائی تعاون تنظیم کے بینر تلے تجارتی انضمام کو فروغ دینے کے لیے چینی تجاویز کی حمایت کرنے سے گریزاں دکھائی دیتا ہے۔ یہ اَپنی قیادت میں یوریشین اِکنامک یونین EAEU کو ترجیح دیتا ہے۔ چین CSTO یا EAEU کا رکن نہیں ہے۔ یہ شنگھائی تعاون تنظیم کی ریجنلزم کی کمزوری کی ایک وجہ تصور کی جاسکتی ہے۔ تاہم امریکہ اور چین کے مابین جاری مسابقت جبکہ یوکرائن کے تنازع کی وجہ سے روس اور مغربی ممالک بالخصوص امریکہ کے درمیان تناؤ کے تناظر میں شنگھائی تعاون کی تنظیم کا علاقائی تعاون کو بڑھانے اور اَفغانستان کے سیاسی اور معاشی اِستحکام میں اہم کردار ادا کرنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ ٭٭٭٭٭

 

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز