133

فریدا جے تُوں میرا ہو رہیں، سبھ جَگ تیرا ہو

محرم کے معتبر مہینے میں بابا فرید کے دربار پر عرس مبارک کی تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔یوں تو سال بھر پاک پتن کی سرزمین باطن میں جھانکنے والے مسافروں کو اپنی سمت کھینچتی رہتی ہے مگر عرس کے دنوں میں یہ کشش کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ بہشتی دروازے کے اسرار سے پھوٹتا فیضِ عام دلوں اور روحوں کو عشق کے در پر حاضری کا سندیسہ کچھ اس طرح پہنچاتا ہے کہ وجود ھو کی تال پر سوار ہو کر اس صحن میں آ پہنچتا ہے جہاں بے شمار حیرتیں، جواب،کشف اورکرامات ہونے کو منتظر ہیں۔

بابا فرید کے فلسفے کا نچوڑ یہ ہے کہ انسان اپنی طرف دھیان کرے، خود کو سمجھے،پرکھے اور اس راز تک پہنچنے کی جدوجہد کرے جو اس کی ذات کے اندر پنہاں ہے اور جس تک رسائی صرف اسی کی ذات کو حاصل ہے۔خدا نے ہر انسان کو کسی خاص مقصد کیلئے پیدا کیا ہے اور اسے پورا کرنے کیلئے اسے خاص صلاحتیں ودیعت کی ہیں۔صرف یہ جانکاری حاصل کر لینے والے لوگ دین و دنیا میں کامیاب اور سرخرو ہوتے ہیں۔ یہی خود شناسی کرامت بنتی ہے کیونکہ جب درست سمت سفر آغاز کر لیا جاتا ہے تو وسیلے، رہنمائی کے جھنڈے تھامے زندگی کے ہر موڑ پر منتظر نظر آتے ہیں۔ خود کو سنوارنے کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔اپنی ذات کی تفہیم کے بعد خیر کے رستے پر قدم رکھتے ہی حقیقتِ مطلق سے قرب بڑھنے لگتا ہے، محبت عشق بنتی ہے، انسان کے اندر شوق کا الاو بھڑکنے لگتا ہے، اسے ہر صورت اور جلوے میں محبوب کی جھلک مسرور کرنے لگتی ہے۔ اس کا تن من ایک کی چاہت میں اک مک ہو جاتا ہے تو وہ اسے پا لیتا ہے۔

جسے بے نیاز کی محبت عطا ہو جائے اس کا ہر لمحہ رحمت، سکون اور سرمستی میں سرشار ہوتا ہے۔دنیا کے جال میں جکڑے لوگ اس کی کیفیت نہیں سمجھ سکتے کیونکہ وہ آزاد فضاوں کا باشندہ ہے، جہاں ہوا میں کوئی مَیل ہے، سوچ میں کوئی وہم اور نہ من میں کوئی ملاوٹ۔ عشق کے اس اعلیٰ مقام پر پہنچ کر ثابت قدم رہنا اصل امتحان ہے۔ انسان کی زندگی کے دو مرحلے ہیں، پہلا اپنی ذات کی آشنائی، تربیت،ذاتِ مطلق کی خوشنودی اور دوسرا اس کی محبت کے سامنے ہر شے کی نفی کر کے صرف اس کا ہو کر رہنا۔ اب اگر انسان اپنی زندگی کے تمام پیمانے اسی ضابطے کے تحت ترتیب دیتا ہے کہ ہر خیال فیصلہ اور عمل ذاتِ مطلق کی رضا کے مطابق ہو تو پھر اس کے ہر کام میں ایسی برکت ڈال دی جاتی ہے کہ وہ ایسی دنیاوی کامیابیاں سمیٹنے لگتا ہے جو بظاہر اس کے حالات و واقعات کے تناظر میں ناممکن دکھائی دیتی ہیں۔ شِرک اور بے وفائی کو ناپسند کرنے والا اپنے سچے عاشق کی محبت اور اطاعت سے خوش ہو کر اس کا من چاہا جہان اسے عنایت کر دیتا ہے۔سارا جہان عنایت کرنے کی کئی صورتیں ہیں۔ایک تو یہ کہ ہر انسان کا جہان مختلف ہوتا ہے۔وہ جہان جس کی اسے خواہش ہے،جو اس کا مقصد ہے،جسے حاصل کرنے کی اسے لگن ہے اور جس کیلئے وہ جدوجہد کرتا ہے۔ یعنی جو وہ بننا چاہتا تھا اس کیلئے ایسے وسیلے پیدا ہوئے کہ اس نے اپنی منزل پالی۔ دوسری صورت یہ کہ جہان کے دل میں بندے کی محبت، احترام اور عقیدت ڈال دی کہ وہ اس کے گُن گانے لگے،اس کی تعریف کرے،اس سے محبت کرے۔ہر انسان چاہے جانے کا جذبہ رکھتا ہے۔یعنی جو فرد رب کا ہو جاتا ہے سارا جہان اس کی تابع داری کرنے لگتا ہے۔یہی وہ راز ہے جو بابا فرید کے دل پر افشا ہوا، ان کی شاعری کا بنیادی تصور بنا اور اسی پر ہماری پوری صوفیانہ شاعری کی عمارت کھڑی ہے۔ہر صوفی نے اپنے جداگانہ انداز میں اپنی ذات کی شاخت، نفی، رب کی رضا میں ڈھلنے، خیر کی راہ پر چلنے اور مخلوق کی بھلائی کو مقصد بنانے پر زور دیا۔بابا فرید نے جو منزل برسوں کی ریاضت اور مجاہدے سے حاصل کی وہ مفت میں حاصل کرنے کا خواب دیکھنے والے ان کی زندگی اورشاعری کو دیکھیں۔ہر لفظ میں عمل کی ترغیب ملے گی۔عمل کی اس قدر تلقین ،اس بات کی شاہد ہے کہ بابا فرید الدین گنج شکر نے اپنی زندگی کے حاصل یعنی خزانے کی پوٹلی اپنے ہر اشلوک میں رکھ دی ہے۔جنہیں سمجھنا ایک محنت طلب اور محبت طلب کام ہے۔

آئیے بہشتی دروازہ چھو کر بابا فرید کی طرح اپنے عملی سفر کا آغاز کریں۔اپنی انکھوں کو خیر کی شمع بنا کر اجالا تقسیم کریں۔دل میں براجمان شر کے بتوں سے نجات حاصل کریں۔نفی کے جھاڑو سے ہر گندگی کا صفایا کریں۔ہمارے من میں بھی جنت کا سرور ہوگا اور یہ دنیا بھی جنت جیسی ہوتی جائے گی۔دنیا کو جنت بنانا جنت کی خواہش سے زیادہ آسودگی کا باعث ہوگا۔

تن من اور دونوں جہانوں کا سُکھ اس کی ذات سے جڑت کے ساتھ منسلک ہے۔جو اس کے سامنے سرنگوں ہوا،وہ سربلندی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔

بابا فرید سے محبت، تصوف سے رغبت اور خیر کے رستے پر چلنے کے خواہشمند صرف یہ اشلوک رہنما کر لیں

آپ سنواریں،مَیں مِلیں،مَیں مِلیاں سُکھ ہو

جے تُوں میرا ہو رہیں، سبھ جَگ تیرا ہو

بشکریہ جنگ نیوزکالم