223

بنام عدلیہ

امریکی سازش، کیا امریکی مراسلے میں اس کا ذکر بھی، معزز جج قاضی فائزعیسیٰ کو پارٹی خراب کرنے کی کیا آن پڑی ۔چشم کُشا الزامات، چشم کشا انکشافات، ایسے دن جب پاکستان سپریم کورٹ کے تین جج تاریخ رقم کرنے کو تھے۔

قاضی فائز عیسیٰ نے آئین، قانون، اخلاقیات اور روایات کا میزائل داغ دیا، تاک کر 5 صفحات پر مشتمل خط لکھ ڈالا۔ ’’میں جناب کی اجازت سے چھٹی پر تھا جبکہ اٹارنی جنرل صاحبِ فراش آپریشن کروا کے اسپتال میں، آپکو کیا ایمرجنسی آن پڑی کہ نئے ججوں کی تعیناتی کیلئے میٹنگ کال کرلی؟

پھر ایک پوزیشن ابھی خالی نہیں ہوئی اور ایک ایسا جج جو دو ہفتے میں ریٹائر ہونے کو، وہ میٹنگ میں اپنے بعد خالی ہونے والی پوسٹ کو پُر کرے ‘‘مزید بھی سر دھننے کو بہت کچھ۔ ایک چارج شیٹ جو ٹی وی چینل ،سوشل میڈیا پر،تین ججوں کے انصاف سے ٹکرلی ۔

قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے چیف جسٹس پر بھرپور عدم اعتماد کیا۔ کیا حسنِ اتفاق، دو دن پہلے چیف جسٹس پر سیاسی جماعتوں کا بھی عدم اعتماد۔ یہ خط چند دن پہلے لکھتے یا یا چند دن بعد (مصیبت اتنی کہ چیف نے جوڈیشل کونسل کا اجلاس بلا رکھا ہے)۔جسٹس فائز عیسیٰ کی مجبوری اپنی مگر پارٹی انہوں نے خراب کردی۔

 سپریم کورٹ نے پچھلی پٹیشن میں آئین کی تشریح و توسیع کی جبکہ آج آئین کو من و عن نافذ کرنا تھا۔ قاضی صاحب اور ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کا سپریم کورٹ پر عدم اعتماد، ریاستِ پاکستان کو اجاڑ گیا۔ آج یہ ملک عجیب و غریب، سونا سونا دکھائی دے رہا ہے۔

ریاستِ پاکستان کے خلاف اس مجرمانہ فعل میں سارے طاقتور ادارے اور مہرے برابر شریک جرم ہیں۔ تاریخ اپنے آپکو دہراتی ہے، عدلیہ نے تو اسے دہرا دہرا کر ہمارا اُوڑھنا، بچھونا بنا دیا ہے۔

 جسٹس منیر نے ’’ نظریہ ضرورت ‘‘ کا بیج بویا،اپنی نگرانی میں پروان چڑھایا، آج شجر سایہ دار، دہائیوں سے عدلیہ کی بسر اوقات اسی سایہ میں، ضمیر ابدی نیند سو رہے ہیں۔ ماضی کے ججوں نے جھکنے پر رفعتیں پائیں، آج کے ججوں کا رشک کرنا بنتا ہے۔ جسٹس منیر تا جسٹس ثاقب نثاراور لامتناہی سلسلہ، ہر ایک رسوائی کا بہترین نمونہ ہے۔

ثاقب نثار کی پچھلے چند مہینوں میں عمران خان کی دہلیز پر حاضریاں، ہزاروں سجدے کرتے دیکھے گئے۔ سُنا ہے موجودہ فیصلوں پر ’’ کالا جادو ‘‘ کے جو اثرات، ثاقب نثار کی مرہون منت ہی تو ہیں۔یہ الگ بات کہ پبلک میں ثاقب نثار سامنے آئیں تو چہرہ احساسِ جرم اور ندامت سے بھرپور،کونے کھدرے ڈھونڈ کر براجمان ضرور رہتے ہیں مگر ایسے کہ آنکھ اوجھل شریک ہوں۔

دہائیوں سے دُہائی، کئی سالوں سے تکرار، ٹی وی پروگراموں میں ازبر کرا چکا ہوں، وطنی تباہی کا آزمودہ فارمولہ سیاسی عدم استحکام ہی ہے۔معاشی، سماجی ، انتظامی ،سفارتی بحران وغیرہ سب اس کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام سے پاکستان ٹوٹا۔

عجیب منظر تھا ،ادھر سپریم کورٹ پر دھاوا،اِدھر ڈپٹی رجسٹرار کا بھاگم بھاگ پہنچنا ،پی ٹی آئی کو مطمئن کرنا۔پٹیشن تیار نہیں، تین گھنٹے ڈپٹی رجسٹرار کا انتظار، اگلے دن ہفتہ چھٹی کے دن اتفاقی طور پر تین ججوں کا لاہور میں موجود ہونا ،پھر بھی’’ شکوہ نواز شریف سے کہ وفادار نہیں‘‘۔ وطن دلدل میں پھنس چکا ہے.

حیف ادارے اپنے مفادات میں مگن،لمحہ بہ لمحہ پاکستان کی بیخ کنی دلجمعی سے جاری وساری ہے۔کس کے ہاتھ پر وطن کا لہو تلاش کروں،میرے وطن کے قاتل کون؟وطنِ عزیز نے ایسوں کاکیا بگاڑا ہے؟سب سے طاقتور عہدے انہی کے تو حوالے کیے ہیں ،بدلے میں اپنے ہی وطن کویہ صلہ ؟

آج عجب شش و پنج،13سیاسی جماعتیں تین ججوں پر عدم اعتماد، معزز ترین جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا چیف جسٹس پر عدم اعتماد،ملک سرکس بن چکا ہے جسکی لاٹھی اسکی بھینس ، آئین جائے بھاڑ میں۔

شرطیہ کہتا ہوں حمزہ بھی بحال رہتے تو حالات نے ابترہی رہنا تھا کیونکہ یہ گتھی بڑی محنت سے اُلجھائی گئی ہے،’’ناکامی عشق یا کامیابی دونوں کا حاصل خانہ خرابی‘‘۔ ازراہ تفنن پرویز الٰہی صاحب کی وکالت بھی علی ظفر اور تین ججوں کی ذمہ داری جبکہ حمزہ ،مزاری کی وکالت بھی علی ظفر اور تین ججوں کے ذمہ۔فیصلہ وہی ہوا جسکا اندازہ تھااورپی ٹی آئی اسکا اعلان پہلے فرما چکی تھی۔

 سپریم کورٹ نے بھی ابہام رہنے نہیں دیا۔ دھڑلے سے دورانِ سماعت پی ٹی آئی کے حق میں با آوازِ بُلند تبصرے آرہے تھے۔جب پہلی درخواست آئی جس میں 25ارکان کے ووٹ کا شمار نہیں کیا جانا تھا۔

آئین کی تشریح اور توسیع میں فراخدلی دکھائی،آئین بنانے والوں کی غلطیاں نکالیں، 25ووٹ منہا کیے۔جب پانسہ پلٹا، دوسرا کیس کل سننے میں آیا تو 10ووٹوں کو شاملِ حال رکھا،ہر دو صورتوں میں فائدہ عمران خان کا رہا کہ فائدہ انہی کارہنا چاہئے تھا۔ تین ججوں کی ماضی میں مسلم لیگ سے رقابت دوسری طرف عمران خان سے لگاؤ ڈھکا چھپا نہیں تھا۔

جسٹس عمر بندیال؛ نواز شریف کی پارٹی صدارت سے معزولی، عمران خان کی صداقت اور امانت پر حلفیہ گواہی ، بنی گالہ ریگولرائیزیشن بینچ، نواز شریف کی تاحیات نااہلی کا بینچ ہو، پارٹی صدارت سے برطرفی کا بینچ، عمران خان پر توہین عدالت لگانے سے انکار ہو یا عمران خان کا سپریم کورٹ رجسٹری پر حملے کا نوٹس نہ لینا ،حمزہ کے حق میں منخرف اراکین نا اہل قرار پائے اور ماورائے آئین فیصلہ آیا، حمزہ کی مخالفت میں 10 منخرف اراکین کا شمار ہو، ہر موقع پر فاضل موجود، یہی کچھ حالات و واقعات جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب کے بھی۔

اعجاز الاحسن صاحب کے اضافی ریمارکس اور نگران جج بننا انکا پروفائل ہمیشہ ہمیشہ بلند رکھے گا۔

آج طاقتوروں کا پاکستان کے مفلوک الحال عوام کے خلاف اتحاد جبکہ ملک تقسیم در تقسیم انارکی کی طرف گامزن ،پہلی دفعہ ایسے حالات کو اپنی جان کا روگ نہیں بنایا کہ اس دفعہ آسودگی اتنی کہ ہمہ یاراں دوزخ ،میرے ساتھ ہی اس آگ میں۔

 دلی صدمہ اتنا، ایٹمی اثاثوں سے محروم ہونا ہے۔کیا ایٹمی اثاثوں سےمحرومی کے بعد اسرائیل کو تسلیم کرنا ایک رسم ہی رہے گی؟دوسری طرف شاید مسلم لیگ ن کو کُبڑے والی ٹانگ ہی ،اللہ کرے کُب نکل جائے،نواز شریف امید کی آخری کرن ،اگر نواز شریف کمر کس کر آتش نمرود میں نہیں کودتے ،اس امتحان میں پورے نہیں اترتے تو پھر مایوسی ہی مایوسی ،خدارا!ناامید نہ کرنا۔میرا دل کہتا ہے،کون بچائے گا پاکستان،شاید نواز شریف!

بشکریہ جنگ نیوزکالم