164

150فیصد اضافہ ،ظلم کی کھلی واردات

کالم نگار کے ذمہ بھی کیا کام لگا ہے کہ تاریخ کی رہ گزر پر بیٹھ کر اہل اقتدار کی ناانصافیوں اور اہلاختیار کی بے حسی اور ظلم پر واویلا مچاتا رہے۔ جس ملک میں ظلم اور عدم مساوات ہی نظام کا دوسرا نام ہو وہاں نوحہ پڑھنے کو بہت کچھ میسر رہتا ہے۔ شاید کالم نگار کا رزق اسی سے وابستہ ہے۔ظلم کی تازہ ترین واردات یہ ہے کہ موجودہ اتحادی حکومت نے اسلام آباد ٹریٹری میں شامل گریڈ سترہ سے گریڈ بائیس کے تمام سول سرونٹس کی تنخواہوں میں 150 فیصد تک اضافہ کردیا ہے۔ یہ اضافہ اس وقت ہوا جب ملک کی معیشت آئی ایم ایف کے وینٹی لیٹر پر پڑی ہے، پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے۔ پاکستان پر عالمی قرضوں کا حجم اسوقت 127 بلین ڈالر ہو چکا ہے۔تنخواہیں دینے کے پیسے موجود نہیں قرض اتارنے کے لئے مزید قرض لینے پڑتے ہیں ،سود در سود میں پاکستان اس قدر پھنس چکا ہے کہ بہتری کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ عالمی بنیے کو رام کرنے کے لیے حکومت عوام کی رگوں سے آخری قطرہ خون بھی نچوڑنا چاہتی ہے ۔ پٹرول ڈیزل کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ غریب کی بوسیدہ جیب خالی کرنے اور اس کے منہ سے نوالا چھیننے کے مترادف ہے۔مہنگی بجلی،ہزاروں کے ماہانہ بلوں نے عوام کے کس بل ایسے نکال دیے ہیں کہ آسانی کے ساتھ دو وقت کی روٹی کھانا مشکل ہو رہا ہے۔ایک طرف عوامکے سامنے خزانہ خالی ہے کا رونا رویا جارہا ہے دوسری طرف بیوروکریسی کے لاڈلوں کی تنخواہوں میں 150 فیصد اضافہ کرنے کی واردات ڈال دی گئی۔ قیام پاکستان سے اب تک گذشتہ 75 سالوں میں یہی واردات تمام کے ساتھ بار بار ہوتی رہی ہے ،حکومتی و سیاسی اشرافیہ خاکی اشرفیہ عدالتی اشرافیہ کاروباری اشرافیہ اور بیوروکریسی کی اشرافیہ کے لیے یہ ملک ایک چراہ گاہ ثابت ہوا۔75 برسوں سے قربانی صرف اور صرف عوام نے دی۔عوام نے صرف قربانی ہی نہیں دی بلکہ اشرافیہ کی کرپشن اور بد دیانتی کی ان تاریک راہوں میں مسلسل ذلت اور خواری کی زندگی کی بسر کی ہے۔حالت یہ ہے کہ اساتذہ کو اپنے مطالبات منوانے کے لئے سڑکوں پر آنا پڑتا ہے۔آنکھوں سے محروم افراد کو اپنی نوکری بچانے کے لیے دھرنے دینے پڑتے ہیں اور پولیس کی لاٹھیاں کھانی پڑتی ہیں۔لیڈی ہیلتھ ورکرز کو اپنی تنخواہ میں چند ہزار اضافے کے لیے بچے گود میں لے کر سڑکوں پر ذلیل و خوار ہونا پڑتا ہے۔پنجاب کی درجہ چہارم کے گیارہ ہزار نئے بھرتی سرکاری ملازمین کو تنخواہیں اس لیے نہیں دی جاتی کہ خزانہ خالی ہے۔بیوروکریٹس کی تنخواہوں میں مگر 150 فیصد اضافہ کر دیا جاتا ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جو پہلے ہی تنخواہوں اور مراعات کے مد میں میں لاکھوں وصول کرتے ہیں۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس نے 2021 میں ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع کی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں بیوروکریسی کی مراعات اقوام متحدہ کے اہلکاروں سے زیادہ ہیں۔یاد رہے کہ اقوام متحدہ کے اہلکاروں کو دنیا بھر میں زیادہ تنخواہ لینے والے افراد میں شمار کیا جاتا ہے۔ بظاہر یہ تاثر موجود ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں کم ہیں اور پرائیویٹ سیکٹر میں کام کرنے والے زیادہ تنخواہ لیتے ہیں۔بظاہر ایسا ہی ہے لیکن بیوروکریسی میں گریڈ 17 سے گریڈ 22 کے افسران کو جو مراعات حاصل ہوتی ہیں اگر ان کی مالیت کو شمار کیا جائے تو ان کی تنخواہ اقوام متحدہ کے اہلکاروں سے بھی زیادہ بنتی ہے ۔مثال کے طور پر گریڈ 22 کے پاکستانی افسر کی تنخواہ آپ بنیادی تنخواہ صرف 1 لاکھ 660 ہے مگر اصل میں سے حاصل مراعات اور فائدے اگر شمار کئے جائیں تو یہ تنخواہ 7 لاکھ سے اوپر بنتی ہے۔گریڈ 22 اور 21 کے افسران کو حاصل طبی سہولیات ان کی بنیادی تنخواہ سے سات گنا زیادہ ہیں۔اس رپورٹ کے مطابق ایک وفاقی سیکرٹری کو ان کے ہم پلّہ اقوام متحدہ کے اکثر سے زیادہ مالی فوائد ملتے ہیں۔یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ سرکاری تحقیق کے سرکاری ملازمین کے زیر استعمال رہائشی گاہوں کی کل قیمت تقریباً 14 کھرب روپے بنتی ہے حکومت ان تمام سرکاری گھروں کو پرائیویٹ سیکٹر کو بیچ کر 14 کھرب روپے سے زائد رقم حاصل کر سکتی ہیں اگر ان رہائش گاہوں کو کرائے پر دیا جائے تو گیارہ ارب روپے حاصل ہوتے ہیں۔ بیوروکریسی کا نظام اس خطہ میں انگریز کا تحفہ ہے جس کے ذریعے اسنے یہاں کے دیسی لوگوں پر حکومت کی تھی۔انگریز چلے گئے لیکن بیوروکریسی کا وہی نظام جس میں بیوروکریسی اور عام آدمی کے درمیان آقا اور غلام کا تعلق ہے اسی طرح موجود ہے۔بیوروکریٹس سول سرونٹس کہلاتے ہیں۔سول سروسز اکیڈمی میں انہیں عوام کا آقا بننے کی ذہنی تربیت دی جاتی ہے۔انہیں ریڈ ٹیپ ازم کے گر سکھائے جاتے ہیں۔بے کس اور بے یارو مددگار دار سرکاری دفتر میں آ نکلے اس کو کس طرح اس کی اوقات یاد دلانی ہے۔ یہ سب سول سروسز اکیڈمی میں ان کی گھٹی میں ڈالا جاتا ہے۔پھر جب یہ فیلڈ میں آکر کار سرکار کی مشینری کا پرزہ بنتے ہیں تو گورا صاحب کا اصلی نمائندہ بن کر عوام پر حکمرانی کرتے ہیں اسی لیے تو انہیں نوکر شاہی کہا جاتا ہے۔ نوکر شاہی کی اصطلاح میں ہمارے سرکاری اور انتظامی ڈھانچے کی کہانی موجود ہے۔عوام کی خدمت سے زیادہ یہ۔بیورو کریسی کرپشن اور بددیانتی میں ہر حکومت کی آلہ کار بنتی ہے۔ حکومتیں بدلتی رہتی ہیں مگر گھاگ اور جہاندیدہ بیوروکریسی وہیں موجود رہتی ہے۔ ٹھیکے ،کمیشن،رشوتیں ،اربوں کھربوں میں سے کروڑوں کے حصے ان کے بنکوں کو بھرتے ہیں مگر ہوس ختم نہیں ہوتی۔یہ سرکاری ملازم ہوکر اشرافیہ کی مراعات زدہ زندگی جیتے ہیں۔ پاکستان کے غریب عوام کے ٹیکسوں پر پلتے ہوئے بیوروکریسی کے یہ سفید ہاتھی پہلے ہی مراعات کی مد میں جو کچھ سمیٹ رہے ہیں وہ نہ صرف پاکستان کے خزانے پر بوجھ ہے بلکہ ان کے استحقاق سے بہت زیادہ ہے۔ان کے تنخواہوں میں 150 فیصد اضافہ پاکستان کے ستر فیصد نادار اور سفید پوش عوام کے ساتھ ظلم کی کھلی واردات ہے۔

 

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز