269

پاکستانی جامعات کے دو نمبر پی ایچ ڈی

’’ ہم پاکستان کے ہر ضلع میں یونیورسٹی بنائیں گے ۔‘‘

یہ نعرہ آپ نے اکثر سنا ہوگا۔کبھی کوئی جماعت اسے اپنے منشور کے طور پر پیش کرتی ہے تو کبھی کوئی لیڈر جلسوں میں اپنے ’ویژن‘ کے طور پر بیان کرتا ہے۔دلچسپ بات مگریہ ہے کہ پاکستان کے 160 اضلاع میں 142یونیورسٹیاں پہلے سے موجود ہیں، گویا اوسطاً ہر ضلع میں ایک یونیورسٹی ہےاور اُن میں دھڑا دھڑ پی ایچ ڈی پیدا ہورہے ہیں ۔ ہائر ایجوکیشن کی ویب سائٹ کے مطابق اِن 142 جامعات (بشمول متصل ادارے ) کوگزشتہ برس 51ارب روپے کی گرانٹ جاری کی گئی جبکہ یونیورسٹیوں کے اپنے ذرائع سے ہونے والی آمدنی اِس کے علاو ہ ہے۔سوال یہ ہے کہ کیاپاکستان کی جامعات نے کوئی شے ایجاد کی ، کوئی نیا تجربہ کیایاکوئی ایسی تحقیق کی جس نے دنیا میں نام کمایا ہو؟ ہم سب کو معلوم ہے کہ اِس کا جواب نفی میں ہوگا۔ ذاتی حیثیت میں یقینا ً کچھ لوگ پاکستانی جامعات میں قابل قدر کام کر رہے ہیں ، ایسے لوگ ہر جگہ مل جاتے ہیں مگر سوال پھر وہی کہ ہماری جامعات کی کارکردگی صفر بٹا صفر کیوں ہے ؟سچ پوچھیں تو ہمارے ہاں یونیورسٹی، اسکول اور کالج میں کوئی فرق نہیں ، جیسے کوئی بچہ اسکول سے میٹرک کا امتحان پاس کرتا ہے اسی طرح ایک نوجوان یونیورسٹی سے ایم اے کرکے نکلتا ہے ۔

ہم سمجھتے ہیں کہ اسکول بچوں کیلئے ہوتا ہے اور یونیورسٹی بڑے بچوں کیلئے ، اسی لیے ہم بغیر سوچے سمجھے کالجوں کو یونیورسٹیوں کا درجہ دے دیتے ہیں اور سیاسی مقاصد کیلئے چھوٹے شہروں میں نئی یونیورسٹی بنا دیتے ہیں ۔ ہم یہ سوچنے کی زحمت بھی نہیں کرتے کہ اِن جامعات میں فلسفہ، تاریخ ، عمرانیات، سیاسیات ،ادب، طب، سائنس اور ریاضی کے قابل اساتذہ کہاں سے آئیں گے ۔لیکن کاغذوں میں چونکہ ہمارے پاس ہزاروں پی ایچ ڈی ہیں اِس لیے یہ تمام ’ڈاکٹر ‘ اِن جامعات میں کھپ جاتے ہیں اور یوں جہالت کا پہیہ چلتا رہتا ہے ۔آپ یہ اعتراض کر سکتے ہیں کہ میں اِن پی ایچ ڈی خواتین و حضرات کو ’جاہل ‘ کیوں کہہ رہا ہوں تو گزارش ہے کہ میری کیا مجال کہ کسی کو جاہل ہونے کا طعنہ دوں ، میرا سوال صرف یہ ہے کہ پی ایچ ڈی صاحبان کی اتنی بڑی تعداد ، 142 سرکاری جامعات اور 51 ارب روپے کی گرانٹ مل کر بھی ایک ایسی ایجاد پیٹنٹ نہیں کروا سکے جو پاکستان کو ڈالروں میں زرمبادلہ کما کر دے سکے۔ 2020میں پاکستان نے کُل ملا کر 338 پیٹنٹ درخواستیں جمع کروائیں۔سادہ الفاظ میں پیٹنٹ کروانے کا مطلب کسی ایجاد ، تحقیق یا دریافت کے حقوق اپنے نام پر محفوظ کروانا ہے۔ پاکستان کے مقابلے میں بھارت نے اسی سال میں 23,141جبکہ کوریا نے 180,477پیٹنٹ درخواستیں جمع کروائیں۔اِن اعداد و شمار سے ہی اندازہ لگا لیں کہ ہماری جامعات فقط دولے شاہ کے چوہے پیدا کر رہی ہیں جن کاتحقیق اور جستجو سے کوئی لینا دینا نہیں ۔ترقی یافتہ ممالک میں جامعات ایک تھنک ٹینک کا کام کرتی ہیں اور حکومتوں کو مختلف پیچیدہ مسائل کا حل تجویز کرتی رہتی ہیں۔ کیا ہماری جامعات میں سے کسی نے ملک کے معاشی بحران کا کوئی ٹھوس حل پیش کیا، کیا کسی نے توانائی کے مسئلے کا حل تجویز کی ، کیا کسی نےموسمی آلودگی کی آفت سے نمٹنے کیلئے کوئی حکمت عملی بنا کر حکومت کو پیش کی ؟ میرے علم میں تو ایسی کوئی قابل ذکر کاوش نہیں ، اگر کسی کے علم میں ہوتو ضرور آگاہ کرے۔

یہ سب ’تبرّا‘کرنے کے بعد اب میرا فرض بنتا ہے کہ اِس مسئلے کوئی حل بھی پیش کروں ۔ جامعات کی عالمی درجہ بندی میں مختلف پہلوؤں کو مد نظر رکھا جاتا ہے ، اِن میں سب سے زیادہ وزن تحقیق کو دیا جاتا ہے اوریہ دیکھا جاتا ہے کہ کس یونیورسٹی میں تحقیقی مقالوں کی تعداد اور معیار کیا ہے ۔ اگر ہمیں اِس معیار کو بہتر کرنا ہے تو یونیورسٹی اساتذہ کی ترقی کو تحقیقی مقالوں سے مشروط کرنا ہوگا، اِس قسم کی شرط کاغذوں میں پہلے سے موجود ہے ، مگر ہم نے اِس کے مختلف جگاڑ (loopholes)نکال رکھےہیں اور یوں ترقی کے اُسی فرسودہ نظام سے چپکے ہوئے ہیں جن میں سینئر پروفیسر لیٹے لیٹے اگلے گریڈ میں پہنچ جاتا ہے اور یوں (بقول منیر نیازی) ’خرِ کہنہ مشق ‘ کہلاتا ہے ۔دنیا میں ایسا نہیں ہوتا۔دنیا میں فیکلٹی ممبران اپنی ترقی کی خاطر طلباء کی طرح محنت کرتے ہیں ،اُن کیلئے اپنی تحقیق کو یونیورسٹی کے منظور شدہ عالمی معیار کے جرائدمیں شائع کروانا ضروری ہے، اِس مجبوری کے نتیجے میں ہر سال ہزاروں تحقیقی مقالے سامنے آتے ہیں۔جبکہ پاکستانی یونیورسٹی میں ایسوی ایٹ پروفیسر بننے کے لیے اتنی شرط ہے کہ آپ کے کم ازکم 10 مقالے ایچ ای سی کے منظور شدہY درجے کے جریدے میں شائع ہوں، یہ کوئی مشکل کام نہیں کیونکہ اِن میں پاکستانی جریدے شامل ہیں جن میں فیکلٹی ممبران آپس میں ہی ایک دوسرے کو تحقیقی مقالے بھیج کر امر ہوجاتے ہیں ۔ اسی طرح پروفیسر بننےکیلئے ایسے 15مقالوں کا شائع ہونا ضروری ہے ، یہاں ایچ ای سی کی شرط xدرجے کے جرائد کی ہے اور یہ جرائد بھی پاکستان میں مل جاتے ہیں لہٰذا یہ پُل آسانی سے پار ہوجاتا ہے۔اِس کے علاوہ تجربے ، سینیارٹی اور کتاب لکھنے کے بھی کچھ نمبر ہیں مگر یہ تمام پڑتال پاکستانی بھائیوں نے کرنی ہوتی ہےلہٰذا اِس ضمن میں کسی عالمی معیار کاتردد نہیں کیا جاتا ۔ اسی طرح کاغذوں میں یہ شرط بھی ہے کہ پی ایچ ڈی کرنے والے کا مقالہ باہر کی کسی مستند یونیورسٹی کے پروفیسر کو دکھایا جائے گا ، اوّل تو اچھا پروفیسر اِس کام کیلئے راضی نہیں ہوتا، اگر بہت منت ترلے کے نتیجے میں وہ مقالہ دیکھنے پر آمادہ ہوجائے اور اُس پر اپنا تبصرہ اور اعتراضات لکھ کر واپس پاکستانی یونیورسٹی کو بھیج بھی دے تو یہاں تان پھر اسی سپروائزر پر آکر ٹوٹتی ہے جس نے یہ طے کرنا ہے کہ آیا تحقیق کرنے والے طالب علم نے اعتراض دور کردیے یا نہیں ۔ اور یوں ہم وہ پی ایچ ڈی پیدا کرکے مارکیٹ میں پھینک دیتے ہیں جو کسی معاملے کا فہم نہیں رکھتے حتیٰ کہ اپنے شعبے کے بھی ماہر نہیں ہوتے ۔ ایسے پی ایچ ڈی اور ایسی یونیورسٹیاں اگر پاکستان میں آج دگنی بھی ہو جائیں تو ملک کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ صفر میں جتنی مرضی مرتبہ صفر جمع کرلیں ، جواب صفر ہی آئے گا۔

بشکریہ جنگ نیوزکالم