371

یہ گھڑی محشر کی ہے،’’ہم‘‘عرصۂ محشر میں ہیں(آخری قسط)

2 ستمبر 1945ء کو دوسری عالمگیر جنگ اپنی تمام تر ہولناکیوں کے ساتھ اختتام پذیر ہو گئی۔ اس دن سے لے کر اب تک ستتر برسوں میں کوئی ایسی جنگ نہیں چھڑی جس کے شعلے پوری دُنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیں۔ اس کی دو اہم وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ مغربی اتحاد کی جیت کا بنیادی مقصد پوری دُنیا پر ایک عالمی مالیاتی، سُودی نظام کے تحت حکمرانی کرنا تھا۔ یہ مقصد آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دیگر مالیاتی ادارے بنا کر حاصل کر لیا گیا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ کسی بھی جنگ کو منصوبہ بندی سے یورپ اور امریکہ کے ساحلوں سے دُور رکھا گیا۔ پہلے چالیس سال سوویت یونین کے کیمونزم سے ڈرا کر ویت نام سے لے کر چلی تک لاتعداد ملکوں میں قتل و غارت کا بازار گرم کیا گیا، جو سرزمین یورپ و امریکہ سے کوسوں دُور تھے۔ کیمونزم کی شکست کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کا میدان بھی مسلم دُنیا کو بنایا گیا، جس کی چیخ و پکار بھی یورپ و امریکہ میں سنائی نہیں دیتی تھی۔ لیکن ایک ایسی جنگ کی آگ اب بھڑک اُٹھی ہے جس کا نکتۂ آغاز ہی یورپ کا دل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس جنگ کے ابتدائی ایّام میں ہی میڈیا پر جو خوفِ کی فضا طاری تھی، اس میں سب یہ ماتم کرتے نظر آتے تھے کہ دربدر ہونے والے یہ افراد پسماندہ اور مفلوک الحال نہیں، بلکہ یورپی ہیں جو جدید تہذیب کی سہولتوں سے آراستہ زندگی کے عادی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس محاذ کے کھلنے کے صرف پندرہ دن کے اندر اقوام متحدہ نے پوری دُنیا میں اس جنگ کے پھیلائو کے نتیجے میں خوراک، توانائی اور مالیاتی نظام پر اس کے اثرات کا جائزہ لینا شروع کیا اور 13 اپریل 2022ء کو ایک تفصیلی رپورٹ شائع کر دی گئی۔ اس رپورٹ کا خلاصہ یہ تھا کہ یہ جنگ اگر صرف یوکرین اور روس کی سرزمین تک ہی محدود رہی تو پھر بھی اس کی وجہ سے پوری دُنیا غلے کی شدید کمی کا شکار ہو جائے گی اور لاتعداد ممالک میں قحط جیسی صورت پیدا ہو سکتی ہے، جبکہ تیل و گیس کی کمی کا بحران ٹرانسپورٹ اور کارخانے بند کروا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ عالمی سطح پر معاشی کرنسیوں کا بحران بالکل جنگِ عظیم دوم والی کساد بازاری لائے گا کہ لوگ بوری میں نوٹ بھر کر ڈبل روٹی خریدنے جائیں گے۔ اس وقت دُنیا کا ہر ملک ان آنے والے خوفناک دنوں کے لئے خوراک اور توانائی کے ذخیرے جمع کرنے میں لگا ہوا ہے۔ لیکن پاکستان کے مقتدر حلقوں کی بے حسی اور حالات سے بے اعتنائی سمجھ سے بالاتر ہے۔ دُنیا بھر کے معاشی تجزیہ نگاروں کے جائزوں کا مطالعہ کریں جو یوکرین روس جنگ کے ممکنہ معاشی اثرات پر لکھے گئے ہیں تو ان میں پاکستان کے بارے میں خدشات سب سے نمایاں ہیں۔ مائیکل روبن (Michael Rubin) کی رپورٹ کے مطابق پاکستان ان پہلی تین معیشتوں میں سے ہے جو اس جنگ کی وجہ سے دھڑام سے گر جائیں گی۔ وہ لکھتا ہے کہ پاکستان کی معیشت اس لئے بھی زیادہ خطرے میں ہے کیونکہ یہاں سالوں سے کرپشن، نااہلی اور غیر یقینی سیاسی صورتِ حال نے تباہی پھیلا رکھی ہے۔ مصر اور انڈونیشیا کے بعد پاکستان یوکرین اور روس سے گندم منگوانے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے باقی تمام ممالک کو گندم کی ضرورت ہے یا توانائی کی، لیکن پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ اسے دونوں کی ضرورت ہے۔ تجزیہ نگاروں کے نزدیک موجودہ پاکستان کی سیاسی صورتِ حال پر اس جنگ کے اثرات کی وجہ سے ایک دن پاکستانی کرنسی بالکل ناکارہ ہو کر رہ جائے گی۔ حالات ایسے ہیں کہ پاکستان کے پاس تیل اور گیس کا کوئی ذخیرہ موجود ہے اور نہ ہی کھانے کے لئے گندم۔ اس کسپمرسی میں پاکستان کی نظریں چین کی جانب ضرور اُٹھیں گی، لیکن پاکستان کی امریکہ نواز پالیسی اور آئی ایم ایف پروگرام اسے اس طرف دیکھنے بھی نہیں دے گا۔ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں سے کون پاکستان کی مدد کون کرے گا، سب کو اپنی پڑی ہو گی۔ عالمی رپوٹوں اور جائزوں کے مطابق اگست کے شروع تک پاکستان کی معیشت ایسی حالت میں پہنچ سکتی ہے کہ اس کے پاس تیل خریدنے اور گندم منگوانے کے لئے بھی فارن ایکسچینج موجود نہ رہے۔ سیاسی حالات اور نااہلی کا عالم یہ ہے کہ گورنر سٹیٹ بینک کی تقرری نہ ہونے کی وجہ سے آج 22 جولائی کو سٹیٹ بینک کا بورڈ ٹوٹ چکا ہے۔ پانچ میں سے تین ممبران آج ریٹائر ہو گئے۔ باقی دو میں سے ایک عارضی گورنر ہے اور دوسرا سیکرٹری فنانس۔ شہباز شریف تین ماہ میں یہ فیصلہ ہی نہیں کر پائے کہ کس کو گورنر لگانا ہے۔ یعنی وہ سٹیٹ بینک جس نے پاکستانی روپے کی قدر کو کنٹرول کرنا ہے، وہ سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ ان حالات میں ہارس ٹریڈنگ سے لے کر کرپشن اور سیاسی مناقشت سے لے کر عوامی غیظ و غضب، پاکستان کو ایک ایسے خوفناک انجام کی طرف دھکیل رہا ہے جس کا تصور کرتے ہوئے بھی خوف آتا ہے۔ اس جنگ کی وجہ سے دُنیا کے تمام ممالک پھونک پھونک کر قدم رکھ رہے ہیں۔ ایران اور روس نے اپنا متفقہ موقف بنا لیا ہے۔ ترکی اور قطر بھی شام کے معاملے پر اکٹھے ہو چکے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ تمام عرب ممالک یہاں تک کہ عراق اور مصر جیسے امریکی اشیرباد والے ملک بھی جدہ میں محمد بن سلمان کی قیادت میں متحد ہیں۔ اسرائیل کا بھی عالم یہ ہے کہ آج سے کچھ عرصہ قبل، اس کا میڈیا اپنے جس صحافی کی مکہ مکرمہ میں تصاویر دکھا کر فخر کر رہا تھا، اس پر اسرائیل کے وزیر برائے ریجنل کوآپریشن ایساوی فریج (Esawi Frej)نے باقاعدہ معافی مانگی ہے اور اسے اسرائیل اور مشرقِ وسطیٰ کے تعلقات کو خراب کرنے کی ایک گھٹیا سازش قرار دیا ہے۔ عسکری ماہرین اور عالمی معاشی تجزیہ نگاروں کے نزدیک تیسری عالمی جنگ کا آغاز ہو چکا ہے اور دونوں جانب کی صف بندیوں کا عالم ایسا ہے کہ کسی قسم کا واپسی کا راستہ نظر نہیں آتا۔ ایک بڑے عالمی معرکے میں داخلے سے پہلے امریکہ کی کوشش ہے کہ یوکرین میں گوریلا جنگ سے روس کو خون تھکوایا جائے۔ اس مقصد کے لئے اسلحے کی بے تحاشہ ترسیل بھی کر دی گئی ہے۔ مگر خرابی یہ ہے کہ گوریلا جنگ کے لئے نظریاتی لوگ چاہئیں، یعنی مسلمان مجاہد ہوں یا کیمونسٹ یا پھر کم از کم قوم پرست تو ہوں۔ لیکن یوکرین والے تو خود بھاگ کر یورپی ملکوں میں پناہ لے رہے ہیں۔ ایسے میں امریکہ اور یورپ کے لئے اب بڑی جنگ ناگزیر ہو چکی ہے، اگر نہ کی گئی تو روس یورپ پر چھا جائے گا۔ اس میدانِ جنگ کو اگر سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیوں کی کسوٹی پر رکھ کر دیکھا جائے تو مصر سے شروع ہونے والی خانہ جنگی، عراق پر لڑائی اور پھر شام میں شدید جنگ کے حوالے سے بیان کی گئی احادیث کی ایک ترتیب زمانی ہے۔ عرب میں ایک بادشاہ کی جانشینی پر لڑائی، مدینہ میں بدامنی اور وہاں سے ایک شخصیت کا مکہ آنا اور اس شخصیت کے ہاتھ پر بیعت۔ شام کی حکومت کا اس بیعت کے خلاف لشکر روانہ کرنا جو بیداء کے مقام پر دھنسا دیا جائے گا، جس سے یقین ہو جائے گا کہ یہ شخصیت امام مہدی ہیں۔ افغانستان قدیمی خراسان خصوصاً سے مجاہدین کا امام مہدی کی مدد کے لئے روانہ ہونا، یورپ سے اسّی (80) جھنڈوں تلے فوج کا مسلمانوں سے جنگ کے لئے نکلنا، جس میں ہر جھنڈے کے ساتھ 12 ہزار سپاہی، حلب کے نزدیک اعماق کے میدان میں خونریز جنگ، قسطنطنیہ کا یورپ کے قبضے میں چلے جانا۔ جنگ میں سب سے پہلے فارس کے لوگوں کا مکمل خاتمہ، پھر تمام عرب قبائل خصوصاً قریش کا مکمل خاتمہ۔ ایسی خوفناک جنگ جس میں اس قدر لاشیں ہوں گی کہ اُڑتے ہوئے پر ندے کو بیٹھنے کے لئے بھی صاف جگہ نہیں ملے گی۔ پاکستان اور بھارت میں جنگ کا آغاز، جس میں پہلے بھارت کا پلڑا بھاری، پھر چین کے ہاتھوں بھارت کی تباہی۔ بیت المقدس سے اس جنگ کے لئے لشکر کی روانگی، یہ لشکر اِدھر ہند کو فتح کرے گا تو دوسرا لشکر اُدھر قسطنطنیہ کو واپس فتح کر لے گا۔ جیسے ہی قسطنطنیہ واپس مسلمانوں کے ہاتھ آئے گا، دجال اپنی زنجیریں توڑ کر اصفہان کے ستر ہزار یہودیوں کے ساتھ باہر نکلے گا۔ ہند والا لشکر یہاں سے بادشاہوں کو زنجیروں میں جکڑ کر بیت المقدس لے جائے گا تو وہاں اپنے درمیان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پائے گا، جو دجال کے خاتمے کے لئے تشریف لائے ہوں گے۔ اس تمام ٹائم لائن کو تقریباً دو ہزار احادیث کے ذخیرے سے مرتب کیا گیا ہے اور یوں لگتا ہے جیسے ہم اس ٹائم زون میں آ چکے ہیں، واللہ عالم۔ (ختم شد)

 

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز