289

ایک ’’انتہائی خفیہ‘‘ اجلاس کی روداد

برصغیر کے مسلمانوں کی ’’پرعزم‘‘ جدوجہد سے معرض وجود میں آنے والی مملکت خداداد 16دسمبر 1971ء کے جھٹکے کے بعد بھی دنیائے اسلام کے مسلمانوں کی آخری ’’امید‘‘ ہے۔ 
سال کے بارہ موسم، ایٹمی صلاحیت۔ جدید میزائل ٹیکنالوجی، نمبرون فوج، قبلہ اخیرالمومنین جیسی پارسا قیادت، قدرتی وسائل کے ذخائر، ایک طرف بھارت، دوسری طرف چین، تیسری طرف افعانستان، چوتھی سمت ایران اور پانچویں سمیت سمندر۔ دریائوں، جھیلوں، آبشاروں والے اس ملک کی علاقائی اور ’’عالمی حیثیت‘‘ سے کون انکار کرسکتا ہے۔
 انسانی تاریخ میں اب تک دستیاب ممالک اور اقوام میں سے یہ مملکت ’’خداداد‘‘ اپنی مثال آپ ہے۔ یہاں کوئی شخص اپنی اہلیت کے مطابق کام کرنے کو تیار نہیں۔ ’’نمبرون‘‘ ملک چلانا چاہتے ہیں بلکہ اللہ کے بعد چلاوہی رہے ہیں۔
 وہ نہ ہوتے تو کیا ہوتا؟ اس سوال پر دو آرا ہیں، ایک یہ کہ ملک شام، عراق، لیبیا اور سوڈان و لبنان بن چکا ہوتا۔ دوسری یہ کہ یہ ترقی یافتہ یورپی ممالک کا ہم پلہ، ہم چونکہ جماندرو جمہوریت پسند ہیں، رجعت پسندی کی مخالفت  گھٹی میں پڑی ہوئی ہے اس لئے آپ کو کامل آزادی ہے کہ مندرجہ بالا دونوں آراء میں سے کسی کے بھی حق میں ووٹ دے سکتے ہیں۔
 آپ کے ووٹ کا نتیجہ وہی نکلے گا جو اب تک نکلتا رہا۔ سازش وازش کوئی نہیں بس لوڈشیڈنگ کا دوردورہ ہے۔ ہوسکتا ہے لوڈشیڈنگ یا جنریٹر فیل ہوجائے آر ٹی ایس سسٹم بے قابو اور ووٹ ادل بدل جائے۔ ایسا ہوا تو کمپنی بہادر بالکل ’’ذمہ وار‘‘  نہیں ہوگی۔ 
اتنی اہمیت، نعمتوں، بلندیوں اور پارسا قیادت (اس پر صرف پیرِ بنی گالہ پورا  اترتے ہیں) والے ملک کے خلاف عالمی سازشیں نہ ہوں تو اور کیا ہو۔ سی آئی اے، خاد، موساد، را، کے جے بی، ایم آئی 6 اور دوسری چھوٹی بڑی ایجنسیاں ہمہ وقت اس کے درپے رہتی ہیں۔
 کل  بائیس جولائی کو  مملکت خداداد کے بڑے صوبے پنجاب (یہی ملک کا مالک بھی ہے) کے وزیراعلیٰ کے منصب  کے لئے ’’رن آف الیکشن‘‘ ہونا ہے۔
 دنیا دو عظیم جنگوں میں پنجاب کے ’’سورمائوں‘‘ کی بہادری کے مزے چکھ چکی ہے افریقہ کے صحرائوں سے عراق کی سڑکوں اور لینن گراڈ  سے جرمنی کی گلیوں تک جہاں بھی گئے داستان چھوڑ آئے۔ 
 ( نیل سے کاشغر تک ذکر اس لئے نہیں کیا کہ لوگوں کو ڈرانا مقصود نہیں ) اب یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ کے منصب  کیلئے ’’رن آف الیکشن‘‘ ہو اور دنیا بھر کی اسلام و پاکستان اور پنجاب دشمن ایجنسیاں چپ کرکے بیٹھی رہیں۔

 امریکہ بھارت، جنوبی افریقہ، برطانیہ وغیرہ وغیرہ اینڈ وغیرہ یہ جانتے ہیں کہ اگر چودھری پرویزالٰہی نامی شخص جسے آجکل اس کے نوجوان چھوہرے مونس الٰہی نے ’’سنبھال‘‘ رکھا ہے   پنجاب کا وزیراعلیٰ بن گیا تو رجیم چینج پر ہوا ساڑھے سات ارب ڈالر کا خرچہ ضائع ہوجائے گا۔
 اس عالمی خطرے کے تدارک کے لئے گزشتہ شب لاہور کے ایک نیم پوش علاقے میں ایک اہم " خفیہ "  اجلاس منعقد ہوا۔ 
اجلاس میں رجیم چینج کی دو بڑی مقامی جماعتوں کے نمائندوں کے علاوہ دوخبری (صحافی) بھی شریک ہوئے۔ ان دو خبریوں میں سے ایک کو تحریر نویس اچھی طرح جانتا ہے۔ 1985ء سے 2018ء تک کے 32 سال وہ ایرانی خفیہ ایجنسی کا مقامی نمائندہ تھا پھر القدس  کے معاملے پر اختلافات کی وجہ سے اسرائیلی ایجنسی سے منسلک ہوگیا۔
 دوسرا خبری آپ اس کا پاسپورٹ چیک کروالیں رجیم چینج میں شریک تقریباً تمام ممالک کے ویزے موجود ہوں گے ان میں سے اکثر ملکوں میں وہ برسوں ’’زیرتربیت‘‘ بھی رہا ہے۔ 
بلکہ  شہباز گل کی ننھیالی برادری والے باجوہ صاحب کے پسندیدہ ملک بلجیم میں طویل عرصہ قیام  بھی کیا ہے ۔ 
پی ڈی ایم اور  اس کی اتحادی پیپلزپارٹی رجیم چینج کی مقامی سہولت کار تھیں۔ یہ کل چھ افراد تھے۔ 
ان کی نقل ہرکت  کو پوشیدہ رکھنے کے لئے عین اجلاس کے وقت علاقے میں لوڈشیڈنگ کا انتظام کیا گیا تاکہ اجلاس کے مرکز والے مکان کے پڑوسیوں کو پتہ نہ چل سکے اور نمبرون کا سیٹلائٹ نظام بھی آگاہ نہ ہوسکے۔
 اس اجلاس کی کارروائی سے سی آئی اے، موساد، کے جی بی، را، ایم آئی 6  اور چند وغیرہ وغیرہ ایجنسیوں کے ’’ذمہ وار‘‘  جدید نظام کے ذریعے براہ راست آگاہ ہورہے تھے۔ 
اس جدید نظام کی خوبی یہ تھی کہ یہ لوڈشیڈنگ والے علاقے میں بھی دن کا منظر بناکر پیش کرتا تھا۔ عالمی خفیہ ایجنسیوں کی مانیٹرنگ میں شروع ہونے والے اس اجلاس میں مقامی نمبرون، اور ٹو ، تھری  کو دھوکہ دینے کے لئے زیادہ تر گفتگو ملکی سیاسی تاریخ کے اتارچڑھائو، حالیہ ضمنی الیکشن کے نتائج، کچھ کچھ مسلم تاریخ، بٹوارے اور دیگر موضوعات پر ہوئی مانیٹرنگ کرنے والی عالمی ایجنسیاں اس خفیہ کوڈ ورڈ سے کامل آگاہ تھیں اس لئے ان ایجنسیوں کے سربراہوں اور دیگر ’’ذمہ واروں‘‘  کی سہولت کے لئے اور ان کے ہیڈ آفسوں میں مترجم روانی کے ساتھ ترجمہ کررہے تھے۔
 یہ اجلاس اصل میں چودھری پرویزالٰہی کو اسلامی ایٹمی طاقت کے سب سے بڑے صوبے کا وزیراعلیٰ بننے سے روکنے کے لئے منعقد ہوا تھا 
 مختلف تجاویز زیربحث آئیں۔ دیکھا سوچا گیا کہ وہ کیا کیا طریقے ہوسکتے ہیں جو مسلم امہ کی آخری امید عمران احمد خان نیازی کے نامزد کردہ وزیراعلیٰ کو رن آف الیکشن کے مرحلے میں دھوبی پٹرا مارنے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ 
فنڈز کی فراہمی بہرحال ان ’’ذمہ واروں‘‘  کا سردرد تھا  جنہوں نے پہلے رجیم چینج پر ساڑھے سات ارب ڈالر خرچ کئے ہیں۔ جونہی فنڈز کی بات زیربحث آئی عالمی ایجنسیوں کے سربراہان نے اس کے لئے عطیات دینے کا اعلان کیا چند ہی منٹوں میں اڑھائی ارب ڈالر اکٹھے ہوگئے طے پایا کہ یہ رقم فوری طور پر افغانستان کے راستے پاکستان پہنچاکر اٹک کے پل پر مقررہ نمائندوں کے حوالے کردی جائے گی۔
 رقم کی وصولی کے لئے کنٹینروں کا بندوبست، افغان ایجنسی کے سابق اہلکاران کریں گے۔ 
وزیراعلیٰ کے لئے چونکہ رن آف الیکشن ہونا ہے اس لئے اگر 25کروڑ ڈالر کے حساب سے 10 افراد اٹھالئے جائیں تو نتیجہ اخراجات کرنے والے ممالک کی مرضی کے مطابق  نکل سکتا ہے۔ اس مرحلہ پر لگ بھگ پندرہ سولہ منٹ اینٹی اسٹیبلشمنٹ جماعت پی ٹی آئی کے ان پندرہ ارکان کے بارے میں چھان بین کی گئی کہ وہ کیا تھے کیا ہیں اور کیا ہوسکتے ہیں۔ 
یہ تجویز اسی چھان بین کے دوران سامنے آئی کہ 25کروڑ ڈالر فی نگ  کی بجائے اگر 20کروڑ ڈالر فی نگ رقم مختص کی جائے تو 10کی بجائے بارہ ارکان سے معاملہ ہوسکتا ہے باقی 10کروڑ روپے خیراتی ہسپتالوں، سماجی خدمت کرنے والی تنظیموں کو دے دیئے جائیں۔ 
جونہی  خیراتی ہسپتالوں اور سماجی خدمت کرنے والی تنظیموں کی فہرست بننے لگی اجلاس کے شرکا نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا اس رقم میں سے شوکت خانم ہسپتال، ثریا عظیم ہسپتال اور جماعت اسلامی کی الخدمت کمپنی کو ایک دھیلہ نہیں دیا جائے گا۔
 اس مرحلہ پر آئی ایم 6کے ہیڈ کوارٹر سے دو اہم پاکستانی تنظیموں کے بارے میں ہدایت کی گئی کہ ایک ایک کروڑ ڈالر ان تنظیموں کے سربراہان کو پہنچادیئے جائیں باقی کی آٹھ کروڑ ڈالر کی رقم اجلاس کے شرکا اپنی مرضی سے خرچ کرسکتے ہیں۔

 مرضی سے رقم خرچ کرنے کے لئے غوروفکر کو ماحضر تناول کرنے کے لئے ملتوی کردیا گیا۔ میزبان نے کریلے قیمہ، آلو گوشت، دال، خمیری روٹیوں اور سلاد کے ساتھ ’’مشروبات‘‘ کا وافر انتظام کیا تھا۔ 
کالے چٹے مشروبات میں سے  مہمانوں نے صرف سفید مشروب کو ترجیح دی البتہ میزبان نے کالے مشروب پر اکتفا کیا۔
 بعدازاں مہمانوں کو سفید چونسہ نامی آم سویٹ ڈش کے طور پر پیش کئے گئے۔
 کچھ وقفہ سے ایمان کی سلامتی کے لئے ٹی بیگ والی چائے بھی۔ سوا سات بجے ’’منہ اندھیرے‘‘ (یہ اندھیرا لوڈشیڈنگ کرواکے کیا گیا تھا) شروع ہونے والا اجلاس 10منٹ کم گیارہ بجے شب اختتام پذیر ہوا۔
 اجلاس کے ایک اہم رکن قبل ازیں ایک اور اہم اجلاس میں شریک ہونے کے لئے جاچکے تھے۔ باقی کے پانچ افراد نے ہنسی خوشی گروپ فوٹو بنوایا تاکہ سند رہے اور نمبرون والے کھجل نہ ہوتے پھریں کہ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے وہ خفیہ اجلاس میں شرکت کرنے والوں کے بارے میں جان نہیں سکے۔
 

بشکریہ اردو کالمز