121

سندھ میں لسانی فسادات

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ وہ گھر جہا ں آدمی پیدا ہو تا ہے۔ بچپن کاسنہرا دو ر گزا ر تا ہے ،جہا ں وا لد ین ہو تے ہیں، بہن بھا ئی ہو تے ہیں ۔ہر آنکھ میں پیا ر اور ہر ہونٹ سے نکلی ہو ئی آواز میں مٹھا س ہو تی ہے۔ وہ گلیاں جن میں معصو م کھیل کھیلے جا تے ہیں، ہمجو لیوں کے قہقہے ہو تے ہیں، بے فکر ی کی بھو لپن بھری کہا نیا ں ہو تی ہیں، چھو ٹے چھو ٹے خو اب ہو تے ہیں، ننھی منی خو اہشیں ہو تی ہیں ۔اُن گلیوں سے کسے وا بستگی نہیں ہو تی۔ وہ شہر کسے پیارا نہیں ہوتا۔وہ دوست کسے اچھے نہیں لگتے ۔ پھر یہ کیسے ممکن ہو جاتا ہے کہ صرف مادری زبانوں کے اختلاف پر وہی شہر وہی گلیاںرزم گاہ بن جاتی ہیں ۔ شاید اسی طرح کی کسی کیفیت میں چھٹی صدی ہجری میں ترکی کے معروف شاعر یونس ایمرے نے کہا تھا کہ ’’میں زبانوں کے لفظی و معنوی اختلاف پر خود سے اپنا کوئی بھائی جدا نہیں کر سکتا ‘‘۔لسانی فسادات کی تاریخ خاصی قدیم ہے مگر برصغیر میں اس کا آغاز انگریزوں کے دورمیں ہوا ۔جب انہوں نے اپنے مقاصد کیلئے یہاں قومیتوں کے درمیان اختلافات کی آگ کو ہوا دی۔پاکستان میں اس کی پہلی آگ 1947 میں ہی بھڑکا دی گئی تھی جب ڈھاکہ کے اسکولوں اور کالجوں کے طلبہ نے صوبائی سیکرٹریٹ کے سامنے بنگالی زبان کو قومی زبان بنانے کے حق میں مظاہرے شروع کرائے تھے ۔ قائداعظم محمد علی جناح کے دور رس نگاہ نےالبتہ اس بات کا ادارک کرلیا تھا کہ اگر کسی قومیت کی زبان کو قومی زبان کا درجہ دے دیا گیا تو باقی قومیتیں اسے اپنا استحصال سمجھیں گی اور یہ بات ملک کےمستقبل کے لئے بہتر نہیں ہوگی۔سو قائداعظم نے غالب اور اقبال کی زبان کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا کیونکہ اس وقت یہی زبان بر صغیر کےمسلمانوں کی زبان تھی اور اس بات کو بہتر سمجھا گیا کہ پاکستان میں کوئی گائوں یا قصبہ ایسا نہیں ہے جس کی یہ مادری زبان اردوہو ۔یعنی اردو ہی وہ زبان ہو سکتی تھی جسے پورے پاکستان کی زبان قرار دیا جاسکتا تھا ۔اس کے باوجود لسانی فسادات ہوئے ۔زبانوں کی تفریق کو ملک و قوم کے دشمنوں نے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔میں نہیں سمجھتا مگر بہت سے اہلِ نظر کا خیال ہے کہ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے پس منظرمیں بھی لسانی اختلاف نے سب سے اہم کردار ادا کیا۔ اس وقت سندھ میں پھر لسانی فسادات کی آگ دہکائی جارہی ہے۔ایک سندھی نوجوان کا قتل کو اس کی بنیاد بنایا گیا ہے ۔مقتول بلال کاکا کا تعلق حیدرآباد کے قریبی علاقے نیو سعید آباد سے تھا۔نویں جماعت میں اسکول چھوڑ دیا تھا اور ایک نجی کمپنی میں سکیورٹی سپروائیزر کے طور پر کام کرتاتھا ،شادی شدہ تھا ۔اس کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہے۔بے شک اس کا قتل ایک افسوسناک بات ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ اگرچہ سندھ پولیس کا کہنا ہے کہ اس کے خلاف12 مقدمات درج تھےجن میںغیر قانونی اسلحہ ،ارادہ قتل اوردہشت گردی کی دفعات بھی شامل ہیں مگر میں پولیس کی ان کے تمام الزامات کو رد کرتا ہوں کہ ایک شخص کے قتل پر پولیس کا ایسابیان تکلیف دہ ہے، مجھے اس بات پر بھی اعتراض ہے کہ قتل ہونے والے کے متعلق یہ کہا جائے کہ اس کا تعلق سندھی قوم پرست جماعت جئے سندھ قومی محاذ سے تھا۔مقتول کے کیا نظریات تھے ۔ اس بات کا قتل سے کوئی واسطہ نہیں۔ لیکن اس قتل کے نتیجے میں سندھ میں جو لسانی لڑائی شروع کرائی گئی وہ بہت خوفناک بات ہے۔ اس وقت ان فسادات کے نتیجے میں ایک سو پچاس افراد گرفتار کئے جا چکے ہیں ۔دو افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوچکی ہے ۔بہت سے گاڑیاں جل چکی ہیں۔ وغیرہ وغیرہ

وزیر اعلٰی سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ لسانی فساد کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔تمام شہری پر امن رہیں، قانون اپنا کام کر رہا ہے۔ مجرم جلد قانون کی گرفت میں ہونگے۔ قانون ہاتھ میں لینے والوںکے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔میرے خیال میں اس آگ کو بجھانے کیلئے صرف یہی کافی نہیں۔ اس لئے انتہائی ضروری ہے کہ سوشل میڈیا کی وساطت سے لسانی تعصب اور نفرت کو ہوا دینے والوں کے خلاف بھی کریک ڈائون کیا جائے ۔ سندھیوں اور پشتونوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کیلئےحکومت اپنا کردار ادا کرے ۔وہ لوگ جواس واقعہ کو بنیاد بنا کر سندھ سے دوسری قومیتوں کو نکالنے کی بات کررہے ہیں ۔انہیں خیبر پختون خوا یا پنجاب میں سندھ بدر کیا جائے تاکہ انہیں احساس ہو کہ کسی ایک چھوٹے سے واقعہ سے کسی قومیت کے بارے میں کوئی فیصلہ کرلینا انتہائی غیر مناسب بات ہے ۔بے شک سندھ میں لسانی فسادات کی ایک تاریخ موجود ہے ۔جنرل ایوب کے دور میں پہلی بار مہاجر پٹھان لسانی فساد ہوئے جنہوںنےسندھ کی سیاست پر گہر ے اثرات مرتب کئے تھے ۔اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں سندھی مہاجر فسادات ہوئے جو جنرل ضیا الحق کے دور میں ایم کیو ایم کی تشکیل پر منتج ہوئےمگر قومیں ماضی کی غلطیوں سے سیکھتی ہیں ، الٹا غلطیوں کے پھاٹک نہیں کھولا کرتیں۔ میرے منہ میں خاک مگر مجھے لگتا ہے کہ سندھ جو چنگاری لسانیت کےحوالے سے بھڑکائی جارہی ہے ۔بلوچستان میں بھی حالات خراب کئے جارہے ہیں ۔ابھی دو تین دن پہلے وہاں لیفٹیننٹ کرنل لئیق بیگ مرزا شہید ہوئے ہیں۔ پنجاب میں اس چنگاری کوکسی اور انداز میں ہوا دینے کی بنیادیں رکھی جا رہی ہیں ۔اللہ تعالی ہمارے حال پر رحم فرمائے۔ بے شک یہ پاکستان پر کڑا وقت ہے۔

بشکریہ جنگ نیوزکالم