ایک پاپو لسٹ وزیر اعظم

چند ماہ پہلے ایک صحافی نے وزیر اعظم سے پوچھا کہ جب پورے ملک میں لاک ڈاؤن تھا تو اس نے اپنی رہائش گاہ میں پارٹیاں کیوں منعقد کیں؟ ٹیلیویژن انٹرویو میں پوچھے گئے اس سوال کا وزیر اعظم نے یہ جواب دیا کہ اسے اس بات کا سخت افسوس ہے ایسا ہونا نہیں چاہئے تھا۔ یہ جواب سن کر مخالفین نے اسکی خوب خبر لی اور میڈیا میں ایک مرتبہ پھر یہ کہا جانے لگا کہ سماجی فاصلوں کے جو قوانین اُسنے بنائے  تھے وہ خود ہی انکی خلاف ورزی کرتا رہا۔ اس پارٹی گیٹ سکینڈل کے سامنے آنے کے بعد یہ کہا جانے لگا کہ وزیر اعظم اعتبار کھو بیٹھا ہے اس لئے اسے استعفیٰ دے دینا چاہئے مگر اسنے ان باتوں کی کوئی پرواہ نہ کی اور وہ اپنے روز مرہ کے کام ایسے کرتا رہا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔پھر یہ بات آئی گئی ہو گئی مگر پارٹی گیٹ سکینڈل اسوقت پھر پورے طمطراق کیساتھ میڈیا کی راڈار سکرین پر واپس آیا جب لندن کی پولیس نے اپنی انکوائری مکمل کی اور وزیر اعظم بورس جانسن‘  چند وزراء  ا ور سٹاف ممبرز کو جرمانے کر دیئے اسکے بعد حالات نے پلٹا کھایا اسکی اپنی کنزرویٹو پارٹی کے اندر اسکے خلاف بغاوت ہوئی اور اسے عدم اعتماد کی تحریک کا سامنا کرنا پڑ گیا۔ پارلیمنٹ میں اسکے خلاف 148اور حق میں 212ووٹ پڑے اور یوں وہ اپنی وزارت عظمیٰ بچانے میں کامیاب ہو گیا اب آئین کے مطابق اگلے ایک سال تک اسکے خلاف دوسری تحریک عدم اعتماد نہ آسکتی تھی اسکے بعد لوگ امید کر رہے تھے کہ وہ احتیاط سے کام لے گا اور کسی نئے سکینڈل میں ملوث ہونے سے گریز کریگا۔جو لوگ اسے قریب سے جانتے تھے وہ کہہ رہے تھے کہ ایسا ممکن ہی نہیں۔بورس جانسن بہت جلد کسی نئے سکینڈل کو جنم دیگا یا پھر کوئی ایسا جھوٹ بولے گا جو پورے ملک میں ہلچل مچا دیگا۔ دراصل بورس جانسن گزشتہ بیالیس سال سے برطانوی صحافت اور سیاست کا ایک جانا پہچانا نام ہے۔ لندن کے بڑے اخبارات میں وہ رپورٹر‘ کالم نگار اور ایڈیٹر رہ چکا ہے اسے اسی شہر کا مئیر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے برطانیہ کی صحافت اور سیاست دونوں میدانوں میں اسکے دوستوں اور دشمنوں کی کمی نہیں۔ برطانوی پارلیمنٹ کے ایک سابق ممبر Rory Stewart نے کہا ہے کہ برطانیہ میں بورس جانسن جیسا جھوٹا وزیر اعظم نہیں آیا He knows a hundred different ways to lie  یعنی اسے جھوٹ بولنے کے سو مختلف طریقے آتے ہیں Rory Stewart  کی رائے میں بورس جانسن کی سچ سے پرانی مخاصمت ہے اور وہ خود کو روز مرہ زندگی کے آداب سے بر تر سمجھتا ہے اسی لئے وہ اپنے ہی بنائے ہوئے  قوانین کی پابندی نہیں کرتا۔وہ 1980کی دہائی میں برسلز میں ڈیلی ٹیلی گراف کا نمائندہ تھا وہ اسی وقت سے یورپی یونین کی مخالفت کر رہا ہے اس یورپی اتحاد کے خلاف اسنے دل کھول کر لکھا اور اسکی مخالفت کرتے کرتے وہ Brexitتحریک کا ایک بڑا لیڈر بن گیا۔ڈیلی ٹیلیگراف کے ایڈیٹر Max Hastingsنے بورس جانسن کو برسلز میں بطور رپورٹر تعینات کیا تھا بعد ازاں ان دونوں میں شدید اختلافات پیدا ہو گئے تھے Max Hastings  کا خیال تھا کہ بورس جانسن کی یورپی یونین کے خلاف بھیجی ہوئی خبریں بے بنیاد ہوتی تھیں ایک مرتبہ اسنے کہا تھا I would not take Boris's word about whether it is Monday or Tuesdayیعنی بورس اگر یہ کہے کہ آج پیر ہے یا منگل ہے تو میں اس پر یقین نہیں کرونگا۔ اسکے بعد 2019  میں جب بورس جانسن وزیر اعظم بننے کیلئے انتخابی مہم چلا رہا تھا  تو Max Hastings نے ایک آرٹیکل میں لکھا کہ ”میں بورس جانسن کا باس تھا اور یہ شخص وزیر اعظم بننے کیلئے نہایت نا موزوں ہے“ اس الیکشن میں بورس جانسن نے ٹوری پارٹی کو ایسی فتح دلوائی جو اسنے پچھلے چالیس برسوں میں حاصل نہ کی تھی۔ اس لینڈ سلائیڈ  وکٹری کے باوجود بورس کے مخالفین اپنے مؤقف سے دستبردار نہ ہوئے وہ لکھتے رہے کہ اس سے غلطیاں سرزد ہوں گی اور یہ انکا اعتراف کرنے کی بجائے جھوٹ بولے گا اور پھر اپنے جھوٹ کا دفاع کرنے کیلئے مزید جھوٹ بولے گا۔جوں جوں وقت گزرتا گیا بورس جانسن حکومت کے سکینڈل سامنے آتے گئے‘ ایک موقع پر Ethics Advisor نے یہ انکشاف کیا کہ وزیر اعظم کے اپارٹمنٹ کی تزئین و آرائش پر خرچ ہونیوالے ہزاروں پاؤنڈ ایک کاروباری شخص نے ادا کئے ہیں۔ وزیر اعظم نے شروع میں اس الزام کی تردید کی مگر پھر خاموشی سے یہ رقم ادا کر دی۔ برطانوی اخبارات کے مطابق بورس جانسن کی مقبولیت کی بڑی وجہ یورپی یونین کے خلاف انکی تیس سال پرانی مہم ہے۔اس نے اپنی تحریروں اور تقریروں سے لوگوں کو یقین دلا دیا کہ وہ انہیں یورپی یونین سے نجات دلا ئے گااسکے بعد برطانیہ کی سرحدیں محفوظ ہو جائیں گی تارکین وطن کے داخلے پر پابندی لگ جائیگی‘ڈونلڈ ٹرمپ اور دوسرے پاپولسٹ لیڈروں کی طرح بورس جانسن نے اپنے پرستاروں کو یہ یقین بھی دلایا تھا کہ وہ ریاستی اداروں کو راہ راست پر لے آئیگا۔ٹیکسوں اور ریڈ ٹیپ میں کمی ہو جائے گی، معیشت کو بحال کر کے وہ برطانیہ کو اسکا کھویا ہوا مقام واپس دلوا دیگا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ برطانیہ میں افراط زر دوسرے یورپی ممالک سے زیادہ ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح بورس جانسن بھی باتوں کا دھنی نکلا‘ سکینڈلوں کے ڈھیر لگا دیئے اور وعدہ ایک بھی پورا نہ کیا۔ گزشتہ ہفتے اسکا ایک جھوٹ اونٹ کی پیٹھ پر آخری تنکا ثابت ہوا۔ بورس جانسن کے ایک مشیرChris Pincher نے ایک بار میں ہنگامہ کیا‘وزیر اعظم کو اطلاع مل گئی مگر اخبار نویسوں کے سامنے اس نے لا علمی کا اظہار کیا۔سچ بہت جلد سامنے آگیا۔یہ جھوٹ وزیر اعظم کی کابینہ کیلئے ناقابل برداشت تھا۔ کئی وزراء اور سٹاف ممبرز نے استعفے دے دیئے۔ بورس جانسن نے ڈونلڈ ٹرمپ اور دوسرے پاپولسٹ لیڈروں کی طرح اپنا اقتدار بچانے کی بہت کوشش کی مگر اسے بلآخر ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ کو الوداع کہنا پڑ گیا۔ 

 

بشکریہ روزنامہ آج