187

ہر طرف مہنگائی

مجھے بہت دکھ کے ساتھ یہ لکھنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے سیاسی اکابر نے اپنے خطے کے مختلف ملکوں سے بھی کچھ نہیں سیکھا۔ چلو آپ کیجریوال سے کچھ نہیں سیکھنا چاہتے کہ وہ ہندوستانی ہے تو پھر آپ بنگلہ دیش ہی سےسیکھ لیتے جہاں کرپشن پر چیف جسٹس کو پھانسی دے دی جاتی ہے۔ بنگلہ دیش سے آپ نہیں سیکھنا چاہتے تھے کہ وہ ہمارا بازو رہا ہے تو پھر آپ ملائشیا کے ڈاکٹر مہاتیر محمد سے کچھ سیکھ لیتے، کم از کم ترقی کی راہ کا تعین ہی ہوجاتا۔ چلویہ بھی مان لیتے ہیں کہ آپ مہاتیر سے کچھ نہیں سیکھنا چاہتے تھے تو پھر آپ سنگا پور کے لی کوان ہی سے ترقی کے راستوں کے گر پوچھ لیتے مگر شاید لی کوان کی کچھ باتیں آپ کو اچھی نہ لگتی ہوں کیونکہ لی کوان تو صاف صاف کہتا ہے کہ ...’’جب تم کسی شہر میں چوروں کو حکمران بنتا دیکھو تو اس کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں یا تو اس ملک کا سسٹم کرپٹ ہے یا پھر وہا ں کے عوام بے شعور ہیں...‘‘ چلو لی کوان کو چھوڑ دیتے ہیں کہ اس کی سخت باتیں ہمارے سیاسی رہنمائوں کو کہاں پسند آئیں گی۔ اب میری اپنے سیاسی اکابرسے گزارش ہے کہ آپ سب کو پتہ ہے کہ چین ہمارا پرانا دوست ہے، چین سے ہماری دوستی ہمالیہ سے بلند، سمندروں سے گہری اور شہد سے میٹھی ہے، یہ باتیں ہمیں آپ لوگوں نے بتائیں، ہمیں تو صرف پتہ ہے کہ چین کی 13 ملکوں سے سرحدملتی ہے، چین بارہ ملکوں سے کہیں نہ کہیں لڑا، اس کا اپنے بارہ ہمسائیوں کے ساتھ کوئی نہ کوئی تنازع رہا، صرف ایک پاکستان ہے جس سے چین کبھی نہیں لڑا بلکہ چین نے ہر مشکل مرحلے پر ہماری مدد کی، چین ہمیں ترقی کرتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے، ہم اپنے اس فریفتہ دوست ہی سے کچھ سیکھ لیتے، ہمارے پیارے سیاسی رہنما، چینی صدر شی جن پنگ ہی سے کچھ سیکھ لیتے، چین تو بہت سے معاملات میں رہنمائی کے علاوہ عملی مدد بھی کردیتا کہ ملک سے غربت کو کیسے ختم کیا جاسکتا ہے؟ چین ہمیں یہ بھی بتا دیتا کہ جو علاقے ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں انہیں کس طرح برابری کی سطح پر لایا جاسکتا ہے، انہیں کس طرح تیزی سےترقی کرنے والوں میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ مگر آپ چینیوں کی بات بھی نہیں مانیں گے کیونکہ وہاں تو کرپشن کی سزا ہی موت ہے اور ہمارے رہنما اپنے ملک میں یہ چورن بیچتے ہیں کہ ترقی کے ساتھ کرپشن بھی ہوتی ہے۔ چلو آپ سزائوں سے ڈر گئے تو پھر آپ ایران ہی سے کچھ سیکھ لیتے، ان سے یہ سبق تو لے لیتے کہ مشکلات میں کیسے زندہ رہا جا سکتاہے، جب ہر طرف پابندیاں ہوں تو ترقی کے راستے کیسے بنائے جاتے ہیں۔ کس طرح ریل، سڑکیں اور دیگر چیزیں بہتر کی جاتی ہیں کہ یورپ کو پیچھے چھوڑا جا سکے۔ ایران آپ سے ہر طرح کا تعاون کرنے کو تیار رہتا ہے۔ مگر آپ ڈر جاتے ہیں کہ کہیں امریکہ بہادر ناراض نہ ہو جائے۔

جب آپ ان ملکوں سے کچھ نہیں سیکھ سکے تو پھر افغانستان کے سادہ سے مولویوں سے پوچھ لیتے کہ مسلسل جنگوں کے باوجود کرنسی کو کیسے بہتر اور مضبوط بنایا جاتا ہے؟ لیکن آپ افغانستان کے مولویوں سے کیوں پوچھیں گے کہ آپ کی اپنی اکڑ ہے، آپ خود کو ان سے کہیں بہتر گردانتے ہیں، آپ ٹائی سوٹ والے ہیں، وہ سادہ شلواروں قمیضوں والے۔ جب آپ خطے کے کسی بھی ملک سے کچھ نہیں سیکھ پائے تھے تو اپنا نظام ہی بدل دیتے۔ انگریز نے جو نظام غلاموں کے لئے بنایا تھا اسے رائج رکھنے کی کیا ضرورت تھی؟ اب حالت یہ ہے کہ آپ کے سسٹم کی سانسوں میں کرپشن داخل ہو چکی ہے اور اسی سسٹم کو بچانے کے لئے سیاستدان سرگرم ہیں۔ اس سسٹم کی سزا لوگ بھگت رہے ہیں، لوگوں کو بھوک، افلاس اور مہنگائی کی صورت میں خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے اور یاد رہے کہ اس راستے میں خودکشیوں کے مناظر بھی دکھائی دے جاتے ہیں۔

میرے لئے یہ باتیں بڑی تکلیف دہ ہیں، میں گزشتہ تین دنوں سے جنوبی اور وسطی پنجاب کے مختلف طبقات سے ملا ہوں۔ ان طبقات میں پنجاب کے بڑے زمیندار، چھوٹے اور درمیانی درجے کے زمیندار، کسان اور عام کاشتکار، مزدور، تنخواہ دار افراد، دیہات کے علاوہ شہروں میں بسنے والے، زندگی کے مختلف شعبوں سے جڑے ہوئے افراد شامل ہیں۔ ہر طرف مہنگائی کا جن دندناتا پھر رہا ہے، لوگ پریشان ہیں اور موجودہ حکومت کا موازنہ عمران خان کی حکومت سے کر رہے ہیں۔ اس موازنے میں عمران خان جیت جاتا ہے تو پھر لوگ موجودہ حکمرانوں کو اچھے لفظوں میں یاد نہیں کرتے۔

شاید اقتدار پر براجمان لوگوں کو حالات کا مکمل ادراک نہیں کیونکہ وہ عوام سے متعلق سوچ ہی نہیں رہے۔ حالت یہ ہے کہ معاشرے میں غربت کی کوکھ سے چوریاں اور ڈکیتیاں جنم لے رہی ہیں اور یہ سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے ۔ ان حالات کو کنٹرول نہ کیا گیا تو پھر حالات لوگوں کو خانہ جنگی کے میدان میں اتار دیں گے اور یہ بات یاد رکھیں کہ خانہ جنگی میں محفوظ مقامات بھی محفوظ نہیں رہتے۔ طاہر حنفی یاد آگئے کہ ؎

آنکھوں نے وحشتوں میں بسیرا ہی کرلیا

ظلمت کا رکھ رکھائو تھا بس تیرے آس پاس

بشکریہ جنگ نیوزکالم