306

سنت ابراہیمی اور نمود و نمائش کا کلچر 

وطن عزیز میں اس بار حالات ایسے ہیں کہ چاہنے کے باوجود بھی کچھ لوگ سنت ابراہیمی پر عمل نہیں کر پائیں گے۔ وہ لوگ جو اس سے پہلے نہایت شوق اور عقیدت کے ساتھ سنت ابراہیمی کا اہتمام کرتے تھے ان کے معاشی حالات اس بار ان کو اس پر عمل کرنے سے روک رہے ہیں۔ ان معروضی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں اپنے نمود و نمائش اور غیر ضروری اخراجات کی عادت والے کلچر پر نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے۔ حالانکہ یہ ایک قطعی غیر سیاسی موضوع ہے لیکن اہل علم اور اہل نظر اس پر ضرورتفکر کریں کہ وہ کون سی ایسی نادیدہ قوتیں ہیں جو وطن عزیز کو مسلسل دائرے میں حرکت پر مجبور رکھے ہوئے ہیں اور آگے بڑھنے کے اور ترقی کے راستے میں سد سکندری ہیں؟ اور یہ سوال بار بار ایک ناقابلِ فراموش حقیقت بن کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے کہ 2018 تک ایک مناسب حالات سے آگے بڑھتا ہوا ملک کیسے صومالیہ ، یوگنڈا شام اور سری لنکا کے حالات پیش کرنے لگا؟ ان سوالوں کے جواب اگر سوختہ نصیب قوم کومل پائیں تو شاید یہ سمجھنے میں آسانی رہے کہ کس طرح اور کس نے یہ ہنستا بستا ملک اجاڑا؟ کون اس بات کا ذمہ دار ہے کہ آج متوسط طبقہ کی بھی ایک بڑی تعداد سنت ابراہیمی پر عمل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے؟ 

  موضوع کی طرف واپس آتے ہیں ، جو گھرانے جانور نہیں خرید سکے یا نہیں خرید سکتے ، وہاں بہرحال خاموشی ہے، اضطراب ہے ، دکھ ہے۔ تماشبین معاشرے میں سفید پوشی کے بھرم کو غربت کی چادر میں چھپائے یہ لوگ مضطرب ہیں کہ کہیں ان کی بے بسی اورغربت کا پردہ چاک نہ ہو جائے۔ بہرحال یہ ایک تلخ حقیقت ہے اور مسلسل شرمندگی کا باعث ہے کہ ہم قوموں کی برادری میں ہم ایک معتبر قوم نہیں بن پا رہے؟ لیکن وہ لوگ جو صاحب علم ہیں اور دردمند دل رکھتے ہیں ان کی بصارتوں کی نذر یہ چند معروضات جس پہ اگر ہم اپنے لوگوں کو قائل کر پائیں تو یہ ابرہہ کے لشکر پر ابابیلی کنکریاں گرانے کی سعی کا استعارہ ہے۔ 

ہم سب کو اس سلسلے میں بس اتنا کرنا ہے کہ خود بھی اور ہمارے تمام اہلِ خانہ بھی ،

 دوستوں ، رشتہ داروں اور اہل محلہ سے قربانی کے بارے میں مت پوچھتے پھریں ، جیسے لوگ ایک دوسرے سے پوچھنا شروع کر دیتے ہیں کہ آپ نے جانور لے لیا ، آپ کیا لیں گے؟ 

کسی رشتے دار ، دوست سے فون پر بھی یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ آپ نے جانور لے لیا اور کیا لیا وغیرہ وغیرہ ، ہم نے تو لے لیا ہے ؟   

گلی سے گزرتے بچوں سے بھی مت پوچھیں کہ قربانی کے لیے کیا لیا ہے اور یہ دیکھو ہمارا قربانی کا جانور کیسا ہے وغیرہ؟ نہ ہی یہ جتانے کی ضرورت ہے کہ آپ نے کتنے ہزار یا لاکھ کا جانور خریدا ہے ؟ سنت ادا کریں ، دکھاوا مت کریں ۔  

اگر ہوسکے تو خریدے گئے جانوروں کی تصویریں اپنے فیس بک پر اور واٹس ایپ سٹیٹس پر بھی مت لگائیں۔ گروپس میں بھی اپنے قربانی کے جانوروں کی تصاویر اور تعداد مت بتائیں اور ایسی کسی بحث کا حصہ بننے کی بجائے اصلاح احوال کی کوشش جاری رکھیں۔

مزید یہ کہ اپنے قربانی کے جانور کی غیر ضروری نمائش سے بھی پرہیز کریں۔ کس مسلمان کا دل یہ چاہتا کہ وہ اپنے ہاتھ سے قربانی نہ کرے ؟ اکثر کے مالی حالات اجازت نہیں دیتے ، ہم دکھاوے کے لیے لگائی گئی تصویروں اور جانوروں کی نمائش سے دوسروں کو محرومی کا احساس کیوں دلائیں؟ ان کی دل آزاری کا سبب کیوں بنیں؟ اس کے علاوہ اپنا زیادہ تر وقت اپنے اور اپنے اہل خانہ اور قریبی لوگوں کی قربانی کے فلسفے کی تربیت میں گزاریں۔ ایثار اور قربانی کا بنیادی فلسفہ اللّہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق اور مال کو حسن معاشرت اور خالق کی خوشنودی اور اس کی دی ہوئی نعمتوں کا شکران سمجھ کر خرچ کرنا ہے۔ مجھے احساس ہے کہ

آج کے ماحول میں ، ہم سب کو یہ پابندیاں محسوس ہوگی کیوں کہ کافی عرصے سے یہ کام کر کر کے اب یہ ہماری قربانی کی روٹین کا حصہ بن گئے ہیں لیکن یقین کیجئے کہ یہ تمام کے تمام کام نمود و نمائش کے زمرے میں آتے ہیں دل آزاری کے زمرے میں آتے ہیں اور غریب اور کمزور رشتے داروں ، دوستوں اور محلے داروں کی عزت نفس مجروح کرنے کا باعث بنتے ہیں ؟ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا کے لئے سنت ابراہیمی پر ضرور عمل کیجئے اور اللہ کی راہ میں قربانی ی کے عمل میں اپنے غریب اور سفید پوش رشتے داروں دوستوں کو شریک کر لیں، یاد رکھیں ہم نے جانور قربان کرنا ہے سفید پوش طبقے کے جذبات اور عزتِ نفس نہیں آپ تمام لوگ سلامت رہیں اور اللہ رب العزت آپ کی نیکی اور خیر کی توفیق میں مزید برکت عطا فرمائے ۔ 

 

بشکریہ اردو کالمز