193

بلا عنوان

قارئین کے علم میں ہے کہ گزشتہ انیس سال سے چاہے میں پاکستان میں ہوں یا ملک سے باہر گیا ہوا ہوں، میرا کالم ہر اتوار شایع ہوتا ہے اور کبھی وقفہ نہیں آتا لیکن پچھلے انیس اتوار میرا کالم نہ لکھا گیا اور نہ ہی شایع ہوا۔ اس کی وجہ میرے گزشتہ کالم میں مختصراً بیان کی گئی تھی اور وہ یہ تھی کہ ایک روز اچانک مجھے علم ہوا کہ میری ایک آنکھ کی بینائی جاتی رہی ہے۔

یہ علم اور حقیقت میرے لیے بے حدکربناک تھی۔ میں فوراً ایک آنکھوں کے ماہر کے پاس پہنچا جس نے مجھے ڈاکٹر لطیف سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا۔ ڈاکٹر لطیف نے اپنے ماہر صاحبزادے ڈاکٹر قاسم سے میرا تعارف کروایا اور علاج کے لیے کہا۔ نوجوان ڈاکٹر قاسم جو پاکستان اور بیرونِ ملک سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر چکا تھا، اُس نے مجھے آپریشن تھیٹر میں لے جا کر متاثرہ آنکھ میں دوا کے قطروں کے بعد ایک انجکشن لگا دیا۔ اگرچہ مجھے معلوم نہیں کہ وہ انجکشن کیا اور کیسا تھا۔ قاسم نے مجھے آئی ڈراپس دینے کے علاوہ ایک ماہ کے بعد دوسرے انجکشن کے لیے آنے کے لیے کہا۔

 

دوسرے کے بعد تیسرا انجکشن پھر ایک ماہ کے بعد لگا۔ میں نے دس سال قبل اپنے ایک کالم میں ذکر کیا تھا کہ دانت جائیں تو کھانے پینے کا مزہ جاتا رہتا ہے، آنکھ جائے تو دنیا جاتی ہے۔ جب کہ کان جائیں تو ایمان جاتا ہے۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ پہلے انجکشن کے بعد میری بصارت 10سے 15فیصد، تیسرے کے بعد 70فیصد تک بحال ہو چکی ہے اور باقی تیس فیصد بصارت کی بحالی کے لیے مجھے چند روز کے بعد پھر ڈاکٹر قاسم کے پاس مشورے اور علاج کے لیے جانا ہے البتہ خدا نے انسان کو جو بے شمار قوتیںعطا کر رکھی ہیں ان کا شکر نہ ادا کرنے والے خدائی نعمتوں کے منکر ہوتے ہیں اور ناشکرے کہلاتے ہیں۔

 

جب مجھے چند ہفتے پہلے میرے ایک جمخانہ کلب کے ساتھی نے کہاکہ اس کی بیگم کئی سال سے میرا اتوار کا کالم پڑھتی ہیں اور اب کالم شایع نہ ہونے کی وجہ سے معلوم کرنا چاہتی ہیں کہ کیامیں بقیدحیات نہیں ہوں یا کالم لکھنا چھوڑ چکا ہوں۔ میں نے اپنے ساتھی سے کہا کہ کاغذ اور قلم کا استعمال میرے لیے ایک امتحان کی شکل اختیار کر چکا ہے جو میرے بس میں نہیں رہا لہٰذا جیسے ہی خدا نے مجھے اپنی عطا کردہ بصارت کی نعمت سے پھر نواز دیا تو میرا کالم نویسی کا شغل پھر سے شروع ہو جائے گا۔

یہ صرف لکھنے پڑھنے کی خوبی ایک عطائے خدا وندی ہے جب کہ مالک دوجہاں اور خالق کل نے انسان اور حیوانات کو بے شمار خوبیاں اور قوتیں عطا کر رکھی ہیں جن کا شکر ادا کر کے انسان خدا کے حضور سرخرو ہو سکتا ہے۔ انسا ن کی سانس سے لے کراس کی بے شمار شعبوں میں خوبیوں کا شمار نہیں بلکہ ہر سانس کے ساتھ شکر خدا وندی لازم ہو جاتا ہے۔

طویل وقفے کے بعد جب میرا گزشتہ کالم شایع ہوا جس میں بصارت کا ذکر تھا تو اخبار میں پڑھنے والے بے شمار لوگوں کا مجھ سے رابطہ ہوا۔ صبح سویرے پہلا ٹیلیفون نامور کرکٹر اور میرے اسکول کے کلاس فیلو، سلیم مرزا کا آیا۔ اس کے بعد دوسرا ٹیلیفون میرے سابق کمشنر کے بھائی کا آیا۔ تیسرا ٹیلیفون کریم ظفر ملک کا آیا جب کہ چوتھا ٹیلیفون امریکا کے شہر ہوسٹن سے چوہدری اشرف صاحب کا آیا جو میرے ڈپٹی کمشنر اور پھرچیف سیکریٹری رہ چکے ہیں۔

ان سب نے میرا اخبار کا کالم جس میں بصارت کی کمی کے عذاب کا ذکر تھا، پڑھ کر اپنی اپنی بصارت کو پیش نظر رکھ کر مجھ سے رابطہ کیا تھا اور میری بصارت کی مکمل بحالی کے لیے دُعا بھی کی تھی۔ میرے پاس الفاظ نہیں کہ میں خدا کی ان بے شمار نعمتوں کا ذکر کر سکوںجن کی موجودگی نے ہمیں اشرف المخلوقات کادرجہ دے رکھا ہے۔

بشکریہ ایکسپرس