212

عیش پرست عوام!!

وطن ِ عزیز کی تعمیرو ترقی کے لئے لازم ہے کہ عوام کی عیاشیوں اور ناز نخروں پراْٹھنے والے اخراجات بند کیے جائیں اورلاچار، بے یارو مددگار معصوم حکمرانوں کی سہولیات کے لئے کچھ کیا جائے۔ اِ س زبان دراز عوام کو لگام ڈالنے کیلئے معصوم حکمرانوں نے اگرچہ بے لگام میڈیا کی منہ بندی کی ہے کیونکہ یہ بار بار احتجاج کے نام پر فضول مسائل کے حل کا راگ الپنا شروع کردیتا ہے۔ دہشت گردوں کو پالنے والی اس عوام کی ملک دشمن پالیسیوں کو دیکھتے ہوئے غیر محفوظ حکمرانوں نے چالیس پچاس گاڑیوں پر مشتمل قافلوں سمیت سفر کرنا شروع کردیا ہے۔اکثر اوقات تو غیر محفوظ حکمران ہیلی کاپٹروں کا سہارا لیتے ہیں کہ یہ عوام نیچے سے اْنہیں وَٹے مارتے ہیں۔ عوام کی شاہ خرچیوں کی وجہ سے ملک تباہی کے کنارے آکھڑا ہوا ہے۔ معیشت تباہ ہو کر رہ گئی ہے۔عوامی اللوں تللوں کو دیکھتے ہوئے مسکین حکمرانوں نے سٹیٹ بینک آف پاکستان ایماندار، شریف النفس، پیشہ ورانہ امور میں یکتا اور بین الاقوامی اداروں میں کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھنے والے بندوں کے حوالے کردیا ہے تاکہ چن چن کر عوام کو بتایا جائے کہ ملک عوامی شاہ خرچیوں سے آگے نہیں بڑھتے۔ منی لانڈرنگ میں ملوث، نیب زدہ، چندہ چور، بدعنوان، بدطینت، بدنیت، فارن فنڈنگ پہ پلنے والی عوام نے بیرون ِ ملک اربوں روپے کی جائیداد بنا کر حکمرانوں کووہ چونا لگایا ہے کہ اب ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ اِ س بے مروت عوام کے بچے برطانیہ، امریکہ، آسٹریلیا، سعودی عرب، دبئی کے محلوں میں ہر وقت عیاشیوں میں مشغول ہیں جبکہ معصوم حکمرانوں اوراْن کے تعینات کردہ اکیس بائیس گریڈ کے نوکر اور اْن کے بچے وطن ِ عزیز میں گل سڑ رہے ہیں۔ اْن بے چاروں کے پاس پینے کو صاف پانی، کھانے کو آٹا، رہنے کو گھر تک کی سہولت نہیں اور یہ بے شرم عوام سالانہ آٹھ ارب کی چائے ہضم کرجاتی ہے۔حالانکہ لسی، ستو حتی کہ جوہڑوں کا پانی تک بالکل مفت میسر ہے۔ گزشتہ پچھتر سال سے یہ عوام ملکی معیشت کے ساتھ مسلسل کھلواڑ کرتی آرہی ہے اور بے چارے لاچار و بے یارو مددگار حکمران کبھی امریکہ، برطانیہ، سعودی عرب، چین، دبئی اور دیگر ممالک میں اس عیاش عوام کے لئے بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں۔ پچھلے دِنوں اس عیاش پرست عوام کی مسلسل تیس سال تک خدمت کرتے آرہے حکمران خاندان کے فردنے ایک مسلمان ملک کے حکمران کے سامنے یہ بیان دیا۔ ’’اور میں نے یہی کہا کہ جب میں آیا ہوں توآپ سمجھیں (گے) کہ شاید مانگنے آیا ہے۔ میں مانگنے نہیں آیا، لیکن مجبوری ہے، ہمارا جس طرح ماضی میں،پچھتر سال میں، ماضی میں ہمارا ہاتھ بٹایا ہے، کچھ عرصہ آپ ہاتھ بٹا دیں تو میں نے کہا کہ میں وعدہ کرتا ہوں کہ انشاء اللہ ہم پوری قوم دن رات محنت کریں گے، پسینہ گرائیں گے،(لیکن) اپنے پاؤں پہ کھڑے ہونگے‘۔ اس رقت انگیز بیان پر بڑے بڑوں کی آنکھیں شرم سے جھک جاتی ہیں مگر صد حیف اس بے شرم عوام کے کانوں پہ جوں تک نہیں رینگی۔ دراصل ہمارا نیک طینت حکمران غیر ملکی حکمران کے سامنے گڑگڑاتے ہوئے یہ التماس کررہا تھا کہ عوام نے گزشتہ پچھتر سال سے اقتدار پر قبضہ جمائے رکھا، اپنی تنخواہوں اور سہولیات کی مد میں اربوں روپے قومی خزانے سے لوٹے،بینکوں سے قرضہ لیا اور بعد میں معاف کروا لیا اور سارا بوجھ حکمرانوں اور اْن کے معصوم بچوں پر ڈال دیا۔ حالانکہ یہ عوام تو سرکاری رہائش گاہوں کو بعد از ریٹائرمنٹ چھوڑنا پسند نہیں کرتے۔ چور بازاری کی عادت میں مبتلا یہ عوام پہلے خود گندم اور چینی باہر بھجواتے ہیں اور چند ماہ بعد وہی گندم اور چینی مہنگے داموں درآمد کرلیتے ہیں۔ معصوم حکمرانوں کو کوسنے اور طعنے دینے والی اِس عوام نے کبھی اپنی خود احتسابی نہیں کی اور نہ ہی کبھی نیک نام اور شرافت کی اوجِ ثریا پہ فائز حکمرانوں کے بے پناہ احسانات کا شکریہ ادا کیا۔ بھوک اور افلاس سے نڈھال حکمرانوں نے اپنے اور اپنے معصوم بچوں کے پیٹ کاٹ کر، اپنے کپڑے بیچ کر اس لے پالک عوام کا خیال رکھا ہے۔چھوٹے موٹے کاروبار اورچند دکانیں چلا کر حکمرانوں نے اس ملک کا قرضہ اتارا ہے۔ حکمرانوں کے اہل و عیال نے اپنے کانوں کی بالیاں تک اْتار کر اِس ملک کا قرضہ اتارنے کی کوشش کی ہے مگر لالچ، لوبھ اور ہوس پرستی میں مبتلا اس عوام نے حکمرانوں کے احساسانات کو یاد تک کرنا گوارا نہیں کیا۔ حکمرانوں نے اس عوام پر سانس لینے تک کی سہولت فراہم کی ہوئی ہے اور اْس پر کوئی ٹیکس عائد نہیں مگر یہ عوام بغض حکمرانی میں مبتلا حکمرانوں، اْن کے مفلوک الحال بچوں، اْن کے رشتہ داروں، عزیز و اقارب اور دوستوں تک کو معاف نہیں کرتے۔ وزارتِ اعلیٰ پہ فائز تاریخ پنجاب کے معصوم ترین حکمران جو خاموشی سے کھانے پینے پہ یقین رکھتے تھے اس احسان فراموش عوام نے اْس معصوم حکمران پر بھی بددیانتی کا کیس کردیا ہے۔ حالانکہ کفایت شعاری کے پرلے درجے پہ فائز حکمرانوں نے اِس احسان فرامو ش عوام کو پہننے کے لئے لنڈے کے بازار لگاکردیے ہیں، ہر موسم میں سورج کی روشنی، چاند کی چاندنی مفت مہیا کردی ہے، صاف ستھرا پانی بڑے بڑے ڈبوں میں دکانوں پر میسر ہے۔ برگر، پیزا شاپس، کھانے پینے کی دکانوں کی فراوانی حکمرانوں کی عوامی محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے، پھر بھی یہ عیاش عوام حکمرانو ں کا شکر یہ تک ادا نہیں کرتی۔ مہنگائی کے نام پہ حکمرانوں کو ڈراتے ہوئے عوام کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ حکمرانوں نے عوامی حفاظت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے زہر کی گولیوں تک میں ملاوٹ کردی ہے تاکہ عوام اْنہیں خودکشیوں کا ڈراوا نہ دے۔ عوامی خدمت کے مرض میں مبتلا حکمرانوں نے اعلیٰ تعلیم اور صحت کے شعبہ جات میں جان بوجھ کر بجٹ کم رکھا ہے کہ کہیں عوام پڑھ لکھ کر کہیں باہر منتقل نہ ہوجائے اور وطن ِ عزیز محب ِ وطن پاکستانیوں سے کہیں محروم نہ ہوجائے یاپھر صحت مند ہوکرعوام ایک دوسرے کو مرنے مارنے پہ نہ تل جائیں۔ دانش مندی اور معاملہ فہمی میں بے مثال کردار کے مالک حکمرانوں نے پیٹرولیم مصنوعات میں اس لئے اضافہ کیا تاکہ یہ شاہ خرچ عوام سرکاری گاڑیوں کے جم ِ غفیرمیں گھرے حکمرانوں کی حالت ِ زار کا اندازہ کرسکے کہ بے چارے اپنی جیبوں سے پیٹرول ڈلواتے پھرتے ہیں لیکن عوام کو پھر بھی حکمرانوں کا یہ سادہ طرزِ رہن سہن پسند نہیں۔

 

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز