259

بجٹ تجاویز : کچھ کھٹا کچھ میٹھا

موجودہ حکومت کے معاشی مشکلات کے حل کیلئے کیے جانے والے اقدامات قابل ستائش ہیں لیکن بہرحال ناکافی ہیں۔ موجودہ حکومت نے اپنا پہلا اور اس آئینی مدت کا چوتھا بجٹ پیش کر دیا ہے۔ بجٹ کا کل حجم 9.5 کھرب روپے ہے۔ بجٹ کے تنقیدی جائزہ سے پہلے کچھ بین الاقوامی اقتصادیات کا مختصر جائزہ پیش خدمت ہے۔ 2020 کے اوائل میں پھیلنے والی کووڈ-19 وبائی بیماری کی وجہ سے بہت بڑا عالمی بحران پیدا ہوا۔ جس میں زندگی اور اس سے منسلک امکانات کے تحفظ کے لیے دنیا بھر نے یکساں طور پر بے مثال اقدامات بھی کیے۔ ابھی تک حکومتیں اور مرکزی بینک ، اپنی آبادیوں کو معاشی بدحالی سے بچانے کے لیے مناسب مالیاتی پالیسی اقدامات میں مصروف ہیں۔

اس کے بعد 2022 کے اوائل میں ، روس اور یوکرین جنگ نے اشیاء کی عالمی قیمتوں میں اضافہ کیا، افراط زر اور گھریلو استعمال کی اشیاء کے افراط زر کی شرح کو مزید ہوا دی۔ بلند افراط زر، بڑھتی ہوئی شرح سود، سپلائی کی طویل رکاوٹوں اور بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورتحال کے خطرات نے عالمی اقتصادی بحران کی صورت پیدا کر دی ہے۔ جنگ کے اثرات کے پیشِ نظر عالمی اقتصادی ترقی کی شرح کم ہو کر 3.6 فیصد رہنے کا امکان ہے۔ درمیانی مدت میں ، تمام ممالک کے لیے معاشی آؤٹ لک نیچے کی طرف نظر آتی ہے، سوائے اجناس کے برآمد کنندگان کے جو توانائی اور خوراک کی قیمتوں میں اضافے سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ 

خلاصہ یہ کہ ، بار بار آنے والے معاشی بحرانوں نے پوری دنیا کی حکومتوں کو ان بحرانوں سے نمٹنے کے حوالے سے حکمت عملی تیار کرنے کی اہمیت اور صلاحیت دونوں پر زور دیا ہے۔ بدلتے ہوئے معاشی منظر نامے نے معاشی پالیسی سازی میں بھی مثالی تبدیلیاں رونما کی ہیں۔ اب نالج اکانومی اور سروس بیسڈ اکانومی پر توجہ منتقل کر دی گئی ہے ، جہاں انسانی سرمائے میں سرمایہ کاری ، مشینری، آلات اور عمارتوں میں سرمایہ کاری کے برابر اہمیت کی حامل ہے۔

اب اس پس منظر میں پاکستان کے بجٹ کے چیدہ چیدہ نکات کا جائزہ لیتے ہیں۔ 

عام آدمی کے لئے ریلیف:

سب سے خوش آئند بات یہ ہے کہ مسلسل چار سال کے معاشی قتل کے بعد پہلی بار اس بجٹ میں تنخواہ دار طبقے اور عام آدمی کے لیے ریلیف دیا گیا ہے۔ قابل ٹیکس تنخواہ کی بنیادی حد کو تنخواہ دار افراد کے لیے موجودہ 6 لاکھ روپے سے بڑھا کر 12 لاکھ کرنے کی تجویز ہے۔ اور پہلے سے موجود الائونسز کو بنیادی تنخواہ میں ضم کرنے کے علاوہ 15 فیصد اضافہ بھی تجویز کیا گیا ہے۔ لیکن بری خبر یہ ہے کہ بجٹ تجاویز میں عام آدمی کے لیے اس ریلیف پر آئی ایم ایف کو تحفظات ہیں۔ کیوں کہ آئی ایم ایف ٹیکس میں اضافہ اور خرچوں میں کمی پر زور دے رہا ہے۔ بہرحال موجودہ بجٹ کا سب سے اہم نکتہ عام آدمی کے نقطہ نظر سے یہی ہے ، اور اگر حکومت اس میں ردوبدل کرتی ہے یا آئی ایم ایف کے اصرار پر اس کو کم کرتی ہے تو اس کی بہت بڑی سیاسی قیمت ہو گی۔

فی الحال بہبود سیونگ سرٹیفکیٹس، پنشنرز بینیفٹ اکاؤنٹس، اور شہدا فیملی ویلفیئر اکاؤنٹس میں سرمایہ کاری سے حاصل ہونے والے منافع پر زیادہ سے زیادہ 10 فیصد ٹیکس تجویز کیا گیا ہے۔ پنشنرز کو مزید ریلیف فراہم کرنے کے لیے، اس پر زیادہ سے زیادہ 5 فیصد کی شرح سے ٹیکس لگایا جائے گا۔ عوام کی زندگیوں کو آسان بنانے اور پسماندہ لوگوں کی خدمت کے لیے 70 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ سماجی شعبے میں دیگر مختلف اسکیموں کے لیے 40 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

صنعتوں کے لیے ریلیف کے اقدامات:

مہنگائی کے پیش نظر، کاروباری افراد اور AOPs کے لیے چھوٹ کی بنیادی حد کو 4 لاکھ سے بڑھا کر 6 لاکھ کرنے کی تجویز ہے۔ چھوٹے خوردہ فروشوں کے لیے ایک فکسڈ ٹیکس نظام تجویز کیا جا رہا ہے جس میں ٹیکس کو بجلی کے بلوں کے ساتھ ساتھ رجسٹریشن اور رپورٹنگ کے آسان نظام کے ساتھ جمع کیا جائے گا۔ مجوزہ ٹیکس 3000 روپے سے 10,000 روپے تک ہوگا اور یہ ٹیکس کی ذمہ داری کا حتمی اخراج ہوگا۔ ایف بی آر ریٹیلر کی جانب سے مقررہ ٹیکس کی ادائیگی کے بعد مزید تحقیقات نہیں کرے گا۔ صنعتی اداروں اور دیگر کاروباروں کو پہلے سال میں ڈیپریسیئشن کے 50 فیصد کی بجائے 100 فیصد ایڈجسٹمنٹ کی اجازت دینے کی تجویز ہے۔ یہ تجویز ہے کہ صنعتی اداروں کو تمام مواد پر درآمدی مرحلے پر کٹوتی ٹیکس کو ایڈجسٹ کرنے کی اجازت دی جائے۔ وہ تمام افراد جن کی ایک سے زائد غیر منقولہ جائیدادیں ہیں جن کی پاکستان میں مارکیٹ ویلیو 25 ملین روپے سے زیادہ ہے انہیں غیر منقولہ جائیداد کی مارکیٹ ویلیو کے 5فیصد کے برابر ٹیکس ادا کرنے کی تجویز ہے۔  

لگثرری اشیاء پر ٹیکس:

ٹیکس کا بوجھ امیر طبقے پر ڈالنے کی پالیسی کے تسلسل میں 1600cc سے زیادہ کی موٹر گاڑیوں پر ایڈوانس ٹیکس بڑھانے کی تجویز ہے۔ مزید برآں، ہائی ویلیو ہائبرڈ اور الیکٹرک گاڑیوں کی صورت میں قیمت کے 2 فیصد کی شرح سے ایڈوانس ٹیکس بھی وصول کیا جائے گا۔ نان فائلرز کے لیے ٹیکس کی شرح کو موجودہ 100 فیصد سے بڑھا کر 200 فیصد کیا جائے گا۔ سرکاری محکموں میں نئی گاڑیوں کی خریداری پر مکمل پابندی ہو گی۔

نوجوان طبقے کے لیے اقدامات: 

قومی یوتھ کمیشن قائم کیا جائے گا۔ ’’یوتھ ایمپلائمنٹ پالیسی‘‘ کے تحت 20 لاکھ نوجوانوں کی روزگار کے مواقع تک رسائی کو یقینی بنایا جائے گا۔ نوجوان مردوں اور خواتین کو 5,00,000 روپے تک کا بلا سود قرض دیا جائے گا۔ 25,000,00 روپے تک کم شرح سود پر قرض کی اسکیم متعارف کرائی جائے گی۔ قرضہ سکیموں میں خواتین کا 25 فیصد کوٹہ ہوگا۔ میرٹ کی بنیاد پر اسکیموں کے لیے فنڈز فراہم کیے جائیں گے، نوجوانوں کو اقساط پر اور مفت لیپ ٹاپ اور 250 منی اسٹیڈیم کی تعمیر کے لیے فنڈز فراہم کیے جائیں گے۔ نوجوانوں کے ٹیلنٹ اور انٹرپرینیورشپ کی حوصلہ افزائی کے لیے ’انوویشن لیگ‘ قائم کی جائے گی۔ ’ٹیلنٹ ہنٹ اینڈ اسپورٹس ڈرائیو‘ پروگرام 11 سے 25 سال کی عمر کے نوجوانوں کے لیے وضع کیا جائے گا۔ موسمیاتی تبدیلیوں اور نوجوانوں کی پیداواری سرگرمیوں کے پیش نظر ’گرین یوتھ موومنٹ‘ شروع کی جائے گی۔

ٹرانسپورٹ اور کمیونیکیشن سیکٹر: 

شاہراہوں اور بندرگاہوں کے لیے 202 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے ہائی ویز کی تعمیر کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ 

صحت : عوام کو صحت کی بہتر سہولیات کی فراہمی، وائرل بیماریوں پر قابو پانے اور ان کے خاتمے، طبی آلات کی فراہمی، ویکسی نیشن اور ہیلتھ اسٹیبلشمنٹ کی استعداد کار میں اضافے کے لیے 24 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ 

موسمیاتی تبدیلیاں : 

موسمیاتی تبدیلیوں کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے 10 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے جس میں قدرتی ماحول کو بہتر بنانے کے لیے شجرکاری اور دیگر منصوبے شامل ہیں۔ 

سائنس، ٹیکنالوجی اور آئی ٹی: حکومت نے آئی ٹی سیکٹر کی تربیت، نوجوانوں کو لیپ ٹاپ فراہم کرنے، نیٹ ورک کو بہتر بنانے اور آئی ٹی ایکسپورٹ کو فروغ دینے کے لیے 17 ارب روپے مختص کیے ہیں۔

زراعت اور غذائی تحفظ: زرعی شعبے کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور مشینوں کے استعمال میں اضافے، زمین کی لیزر لیولنگ، آبپاشی کو جدید بنانے، معیاری بیجوں کی فراہمی اور زرعی مصنوعات کی برآمدات کے لیے 11 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ 

صنعت اور زراعت کی پیداوار: 

جدید ٹیکنالوجی، معدنیات کے شعبے اور صنعت پر مبنی ویلیو ایڈڈ ایکسپورٹ کے لیے 5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ 

تعلیم اور ہنر: ہائر ایجوکیشن پراجیکٹ کے لیے بجٹ میں 51 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ جو کہ بہت کم ہے بلکہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کی مثال ہے۔ 

سماجی شعبہ : عوام کی زندگیوں کو آسان بنانے اور پسماندہ لوگوں کی خدمت کے لیے 70 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ سماجی شعبے میں دیگر مختلف اسکیموں کے لیے 40 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ آبی وسائل : بڑے کثیر المقاصد ڈیموں بالخصوص دیامیر بھاشا، مہمند ڈیم، داسو ڈیم، نئی گج ڈیم اور منصوبوں کے لیے بجٹ میں 100 ارب روپے کی رقم شامل ہے۔ کم ترقی یافتہ اضلاع میں چھوٹے ڈیموں، پلوں کو بھی ترجیح دی جاتی ہے۔ بجلی اور آبی وسائل کے منصوبے آپس میں منسلک ہیں جن کے لیے مجموعی طور پر 183 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم کے لیے پاور سیکٹر کے لیے 73 ارب روپے فراہم کیے گئے ہیں۔ انفراسٹرکچر کے لیے مجموعی طور پر 395 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

وفاقی پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے لیے 800 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ ثقافت اور فلم انڈسٹری کا فروغ کے لیے ، نئے سینما گھروں، پروڈکشن ہاؤسز، فلم میوزیم کے قیام پرپانچ سال کی ٹیکس چھو ٹ، اور دس سال کے لیے فلم اور ڈرامے کی برآمد پر ٹیکس چھوٹ کے ساتھ ساتھ پروڈیوسرز کی آمدنی کو انکم ٹیکس سے مستثنیٰ کرنے کی تجویز ہے۔ 

سرمایہ کاری- حکومت شہریوں اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے تنازعات کے حل کے طریقہ کار میں اصلاحات کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ حکومت خیبرپختونخوا میں رشکئی، پنجاب میں لاہور اور سندھ میں دھابے جی میں خصوصی اقتصادی زون بنا رہی ہے تاکہ انہیں فوری طور پر بجلی اور گیس فراہم کر کے جلد از جلد آپریشنل کیا جا سکے۔ 

صنعت اور تجارت- وزارت صنعت و پیداوار نے ایشیائی ترقیاتی بینک کے تعاون سے صنعتی پالیسی پر کام شروع کر دیا ہے۔ وزیراعظم نے برآمد کنندگان کو تمام ریفنڈ کلیمز فوری ادا کرنے کی ہدایت کی ہے۔ سیلز ٹیکس ریفنڈز بھی فوری ادا کیے جا رہے ہیں۔ صنعتوں کو بجلی کی بلاتعطل فراہمی کے لیے صنعتی فیڈرز کو لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ قرار دیا جائے گا۔

حکومت یہ تمام اقدامات اگر عملی طور پر کر پائے تو مشکلات میں گھری ہوئی معیشت کو سنبھالا دینے میں مدد گار ہو سکتے ہیں لیکن لمحہ موجود میں جو سب سے بڑی معاشی مشکلات درپیش ہیں ان میں سرفہرست امر یہ ہے کہ کل محصولات کا ساٹھ فی صد سود کی ادائیگی میں جائے گا۔ یعنی لگ بھگ چار ہزار ارب روپے۔ پاکستان کا کل قرض لگ بھگ 45 ہزار ارب روپے ہے جس میں تحریکِ انصاف حکومت نے اکیلے 20 ہزار ارب کا اضافہ کیا ہے۔ دوسری سب سے بڑی معاشی مشکل یہ ہے کہ کل محصولات کا لگ بھگ پچیس فیصد دفاعی ضروریات میں کھپ جائے گا۔ اس کے علاوہ بڑھتی ہوئی ڈالر اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے ساتھ ساتھ خوردنی تیل اور گندم کی قلت کا مسئلہ بھی موجودہ حکومت کی سب سے بڑی آزمائشیں ہو سکتی ہیں۔ اوپر بیان کردہ تمام اقدامات کے لیے کل محاصل کا باقی ماندہ پندرہ فیصد اور مزید دو ہزار ارب روپے کا قرض لینا پڑے گا۔ غالب نے کہا تھا۔

قرض کی پیتےتھے مے اورسمجھتے تھے کہ ہاں

رنگ لا و ے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن 

 

بشکریہ اردو کالمز