222

تاریخ کی گمشدہ کڑیاں

اہم عہدوں پر فائز افراد اگر اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد یاداشتوں پر مشتمل کتاب لکھیں تو جہاں لوگوں کو ان کے شعبے سے متعلق اندرونی معلومات ملتی ہیں، وہاں کئی اہم تاریخی معاملات میں گمشدہ کڑیاں بھی جڑ جاتی ہیں۔ یہ کام حکمرانوں کو کرنا چاہیے، خاص طور سے وزرا اعظم ، وزرا اعلیٰ ، گورنر صاحبان کو۔ ایوان اقتدار کو انہوں نے زیادہ قریب سے دیکھا ہوتا ہے۔ہمارے ہاں تو ڈکٹیٹر بھی حکمران رہے ہیں، ان میں سے دو (ایوب خان، پرویز مشرف)نے کتابیں تو لکھیں یا لکھوائیں، مگر چونکہ وہ اقتدار کے دوران شائع ہوئیں، اس لئے ان میں مصلحت آمیز ی اور مبالغہ آرائی کا غلبہ اس قدر رہا کہ وہ کبھی مستند حوالہ نہ بن سکیں۔ ایوب خان اقتدار سے الگ ہونے کے بعد چند برس زندہ رہے جبکہ پرویز مشرف مستعفی ہونے کے آٹھ دس سال بعد تک ایکٹو رہے، وہ تب اپنی یاداشتیں یا تاثرات پر مبنی کتاب لکھتے یا لکھواتے تو شائد وہ کام کی چیز ہوتی۔ جنرل کے ایم عارف جنرل ضیا الحق کے بااعتماد ساتھی اور کئی برسوں تک ان کے چیف آف سٹاف رہے ۔ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے ایک مفید کتاب لکھی ،ورکنگ ودھ ضیا، اس کا اردو ترجمہ کرنل (ر) غلام جیلانی خان نے ’’ضیا الحق کے ہمراہ‘‘کے نام سے کیا۔ یہ ضیا دور کے حوالے سے اہم کتاب ہے۔ کے ایم عارف نے ایک اور کتاب ملٹری شیڈوبھی لکھی، اس کا اردو ترجمہ خاکی سائے کے نام سے چھپا۔ اتفاق سے یہ دونوں کتابیں آج کل آئوٹ آف پرنٹ ہیں۔ خاکی سائے میں کے ایم عارف نے کسی قدر تنقیدی لب ولہجہ اختیار کیا اور جنرل ضیا الحق کے حوالے سے بعض وہ باتیں بھی لکھیں جو پہلی کتاب میں نہیں تھیں۔یہ کتاب میرے پاس تھی، مگر کوئی لے گیا ۔ پچھلے دنوں ایک دوست کے پاس اسے دیکھا تو دوبارہ ورق گردانی شروع کر دیا۔ انہوں نے ایک جگہ بتایا کہ جنرل ضیا الحق کے حادثے کے بعد ایک مسئلہ یہ سامنے آیا کہ ان کی تحویل میںبے شمارسرکاری فائلیں اور کاغذات موجود تھے، ان کے بیڈ کے قریب کئی ہزار ایسی فائلیں موجود تھیں۔ یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ جنرل ضیا شائداقتدار چھوڑنے کے بعد کتاب لکھنے کا ارادہ رکھتے تھے یا ممکن ہے وہ کسی وقت کسی سے اپنے دور اقتدار کے حوالے سے کتاب لکھواتے۔ خیر طیارہ کے حادثے نے انہیں مہلت ہی نہیں دی۔ ہمارے پچھلے پندرہ بیس برسوں میں کئی معروف بیوروکریٹ گزرے ہیں، چیف سیکرٹری کے منصب پر انہوں نے اہم ادوار میں ذمہ داریاں نبھائیں۔ اگر وہ اپنی یاداشتیں لکھتے یا کسی کی مددسے رقم کراتے تو کتنا کچھ سامنے آتا۔ یہی معاملہ پولیس افسروں کا ہے۔ چودھری سردار نے دو کتابیں لکھیں ،مگران کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ سیاسی طور پر متنازع ہوچکے تھے، یہ بات تحریر اور واقعات کو زیادہ قابل اعتماد نہیں بناتی۔ ذوالفقار چیمہ صاحب البتہ صاحب اسلوب لکھاری ہیں، ایک سے زائد کتابیں وہ لکھ چکے ہیںاور تسلسل سے کالم لکھ رہے ہیں۔ ایک سابق آئی جی پولیس حاجی حبیب الرحمن کا تہلکہ خیز انکشاف انگیز انٹرویو جناب منیر احمد منیر نے کیا۔ اس میں انکشافات کچھ اس طور ہیں کہ وہ مبالغہ آمیز لگتے ہیں، شائد اسی وجہ سے اس کے حوالے زیادہ نہیں ملتے۔ پاکستانی سفارت کاروں میں سے جمشید مارکر کی کتاب پسند آئی۔ ان کی پہلی کتاب ان کی تقرریوں کی تاریخ ہی ہے، بے رنگ، بے ذائقہ، بور۔ دوسری کتاب’’ کور پوائنٹ ‘‘ البتہ بہت دلچسپ ہے، یہ ان کے مختلف سربراہان حکومت کے بارے میں مشاہدات ، تاثرات ہیں۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ ہونا چاہیے۔کاش شمشاد احمد خان، ریاض کھوکھر اور دوسرے سابق ممتاز سفارت کار اپنی کتابیں لکھیں۔ ریاض محمد خان کی ایک کتاب افغانستان پر ہے اور وہ دلچسپ ہے۔ عبدالباسط صاحب تو خیر مستعفی ہونے کے بعد باقاعدہ ٹی وی پر پروگرام کر رہے ہیں۔ انہوں نے ایک کتاب بھی لکھی ہے، مگر چونکہ وہ بھارت میں سفیر کے طور پر میاں نواز شریف سے خاصے شاکی تھے، اس لئے کتاب میں بھی وہی رنگ نمایاں ہے اور یہ عبدالباسط صاحب کا احتجاج ہی تصور کیا گیا۔ بہرحال دوسرے سفارت کاروں کو بھی ہمت کرنی چاہیے ۔ نجم الثاقب صاحب کئی ممالک میں سفیر اور دیگر اہم ذمہ داریوں پر رہے۔ ان کی ایک شاعری کی کتاب پر مجھے بھی کچھ گفتگو کرنے کا موقعہ ملا تھا۔ نجم صاحب عمدہ شاعر ہیں، مگر انہیں اپنے سفارت کاری کی زندگی پر بھی کتاب لکھنی چاہیے۔ پچھلی دو تین نشستوں میں سابق بیوروکریٹ اور فکشن نگار طارق محمود کی آپ بیتی دام خیال کے مختلف اقتباسات پر بات ہوئی۔ طارق محمود کی کتاب میں خاصا کچھ ہے۔ دو تین واقعات کی طرف اشارہ کرتا ہوں جو ایک طرح سے تاریخ کے مختلف اہم واقعات کی مسنگ کڑیوں کو جوڑتے ہیں۔ 1977کے انتخابات میں طارق محمود شجاع آباد ملتان میں مجسٹریٹ تھے۔ انہوں نے بتایا کہ پیپلزپارٹی کے بعض امیدوار مقامی انتظامیہ سے کسی مدد یا تعاون کے طلب گار تھے، مگر بطور مجسٹریٹ ان کی گواہی ہے کہ دھاندلی کے لئے صوبائی انتظامیہ کی طرف سے کوئی منظم کوشش کی گئی اور نہ ہی انتظامیہ کو دھاندلی کے احکامات جاری کئے گئے، البتہ اپنے طور پر مختلف جگہوں پر کچھ ہوتا رہا۔ طارق محمود کے اندازے کے مطابق اس الیکشن میں پیپلزپارٹی ہی نے جیتنا تھا۔ وہی جیتی، البتہ دو تہائی اکثریت پر شکوک پیدا ہوئے۔ طارق محمود نے البتہ ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا کہ وزیراعظم بھٹو کے بلامقابلہ منتخب ہونے کے بعد صوبائی وزرا اعلیٰ نے بھی بلامقابلہ منتخب ہونے کی کوشش کی۔ نواب صادق حسین قریشی نے باقاعدہ انتظامیہ کو ہدایت کی کہ میرے مقابل کسی امیدوار کے کاغذات داخل نہ ہونے دئیے جائیں۔ اس روز کچہری کے باہر اور دائیں بائیں ہر جگہ پولیس موجود تھی، کسی کو کاغذات جمع کرانے نہیں آنے دیا گیا۔ نہ معلوم کہاں سے اپوزیشن کا ایک امیدوار جو نشتر میڈیکل کالج کا طالب علم تھا، وہ کچہری گھس آیا۔ کاغذات داخل کرنے عدالت جانے لگا تو پولیس نے اسے پکڑنے کی کوشش کی، وہ دوڑ پڑا، پولیس پیچھے تھی، آخر اسے پکڑ کر نکال باہر کیا گیا اور یوں پیپلزپارٹی کے وزیراعلیٰ بلامقابلہ جیت گئے ۔ مخدوم سجاد قریشی جب گورنر تھے تو انہوں نے اپنے سیکرٹری طارق محمود کو بتایا کہ جنرل ضیا نے ان سے پوچھا کہ کہ میں آپ کے گھر ملتان پہلی بار کب آیا تھا؟ مخدوم صاحب نے جواب دیا جب آپ کور کمانڈر ہوں گے۔ جنرل ضیا نے کہا کہ نہیں ایک زمانے میں وہ جنرل یعقوب علی خان کے سٹاف افسر تھے ، جنرل یعقوب نے مخدوم صاحب کے گھر آنا تھا۔ نوجوان ضیا الحق نے نہ صرف مخدوم صاحب کے گھر کا روٹ دیکھا بلکہ وہ اپنے ہمراہ پیمائشی فیتہ لائے اور صدر دروازے کی چوڑائی ماپتے رہے کہ ان کے باس کی کار حویلی کے اندر آسانی سے آ سکے گی یا نہیں۔طارق محمود نے اس پر تبصرہ کیا کہ فرض شناسی کی یہی عادت ممکن ہے ضیا کی ترقی کا زینہ ثابت ہوئی ہو۔ ایک اور مزے دار واقعہ یہ لکھا کہ گورنر کے ساتھ سیکرٹری طارق محمود بھی مری جایا کرتے ، وہاں گورنر ہائوس میں قیام ہوتا۔ گورنر ہائوس مری کا سب سے کشادہ اور فرنشڈ کمرہ ’’گورنر سوئٹ‘‘ تھا۔ صدر ضیا الحق اور وزیراعظم جونیجو جب مری جاتے تو اسی کمرے میں ٹھیرتے۔ آخری ایام میںانہوں نے دیکھا کہ ہر پھیرے میں سوئٹ کا پلنگ بدل جاتا۔ کبھی ایک پلنگ کبھی دوسرا۔ ہائوس کے کیئر ٹیکر نے بتایا کہ صدر یہاں قیام کے دوران جس پلنگ پر سوتے ہیں، وزیراعظم کے سٹاف کی ہدایت ہے کہ جب وزیراعظم آئیں تو ا س پلنگ کونکال کر دوسرا پلنگ بچھایا جائے۔ اسی طرح صدر کا عملہ مصر رہتا کہ ان کی آمد سے پہلے وزیراعظم کے سونے والا پلنگ بدل دیا جائے۔ طارق محمود نے ہلکا پھلکا تبصرہ کیا کہ اگر جونیجو صاحب کی چھٹی نہ ہوجاتی تو ممکن ہے کہ صدر اور وزیراعظم کے برتن بھی الگ ہوجاتے۔ ایک اور اہم شہادت طارق محمود کی اس کتاب سے سامنے آئی۔ سابق سفارت کار کرامت غوری نے اپنی کتاب’’ روزگارِ سفیر ‘‘میں لکھا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نواز شریف وزیراعظم جونیجو کے ہر غیر ملکی دورے میں ساتھ ہوتے۔ کرامت غوری کا تاثر تھاکہ میاں نواز شریف دراصل جنرل ضیا کے بندے تھے اور وہ اسی لئے دورے میں ساتھ جاتے تاکہ وہاں کی اندرونی رپورٹ صدر ضیا کو دے سکیں۔ طارق محمود نے اپنی کتاب میں لکھا کہ جس روز جونیجو صاحب کی اسمبلی توڑی گئی،جونیجو کوریا کے دورے سے واپس آئے تھے۔ا ئیرپورٹ پر ہی انہوں نے پریس کانفرنس کی۔ اس کے بعد وہ وزیراعظم ہائوس پہنچے تو اس دوران جنرل ضیا نے پریس کانفرنس میں اسمبلی توڑنے کا اعلان کر دیا۔ مخدوم سجاد قریشی بھی اس روز جونیجو صاحب کے استقبال کے لئے ائیرپورٹ پہنچے۔ مخدوم صاحب حیران ہوئے کہ میاں نواز شریف کی گاڑی ائیرپورٹ سے نکل رہی تھی اور وہ وزیراعظم کی پریس کانفرنس کے لئے نہیں رکے۔ جہاندیدہ ملتانی سیاستدان نے اس پر حیرت کا اظہار کیا کہ میاں نواز شریف کو آخر اتنی عجلت کیا تھی؟ دو تین گھنٹے بعد جب ڈراپ سین ہوا اور اسمبلی ٹوٹ گئی تب گورنر اور ان کے سیکرٹری طارق محمود دونوں کو سمجھ آ گئی کہ میاں نواز شریف کو علم تھا کہ جنرل ضیا نے ابھی اسمبلی توڑ دینا ہے، اس لئے انہوں نے جونیجو کی پریس کانفرنس میں رکنے کی زحمت ہی نہیںکی۔ یاد رہے کہ جنرل ضیا نے اسمبلیوں کی تحلیل کے فوری بعد نواز شریف کو نگران وزیراعلیٰ پنجاب بنا دیا تھا۔

 

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز