51

اسیران کشمیرکی راجستھان منتقلی

بھارت آزادی کشمیرکے لئے برسر جدوجہد ملت اسلامیہ کشمیر کا درد بڑھانے اوران کی جبیں ہمت کوشکست دینے کے لئے نت نئے زہریلے حربے استعمال کر رہا ہے اسی مہیب سلسلے کوجاری رکھتے ہوئے گزشتہ ہفتے اسیران کشمیرکومسلسل تعذیب میں رکھنے کے لئے کالے قوانین کے تحت سینکڑوں محبوسین کو جموں کی سینٹرل جیل جسے امپھالہ جیل کے نام سے جاناجاتا ہے ،ہیرانگرجیل ،کٹھوعہ جیل ، کوٹ بھلوال جیل اور وادی کشمیر کی جیلوں سے نکال کردلی کی تہاڑ جیل سمیت بھارتی ریاستوں ہریانہ ،یوپی اورراجھستان کی جیلوں میں منتقل کیاگیا ہے۔آپ اندازہ کیجئے کہ سری نگرسے بھارتی ریاست راجھستان تک زمینی سفر 1129کلومیٹر ہے جبکہ یہ سفر 24گھنوں میں طے ہوجاتا ہے ۔سری نگرمیں اس موسم کادرجہ حرارت 22ڈگری ہے جبکہ راجھستان میں اس وقت45ڈگری درجہ حرارت ہے ۔ بھارتی جیلوں میں منتقلی سے اسیران کشمیرکے اہل خانہ اپنے پیاروں کی سلامتی کے حوالے سے شدید پریشان ہیں کیونکہ اب وہ ان سے مل نہیں سکتے اور ان کے حال واحوال سے متعلق کچھ بھی نہ جان پائیں گے ۔ اب دیکھئے کہ اس شدیدگرمی میں محبوسین کشمیر کے لواحقین جب اپنے عزیزوں سے ملنے کے لئے جودھ پور راجھستان جائیں تو اتنا طویل سفر اختیار کرتے ہوئے ان کی کیفیت کیا ہوگی اوراس کسمپرسی کے عالم میں انہیں بطور کشمیری مسلمان کسی ہوٹل میں جگہ ملے گی اورنہ ہی کسی مسافر خانے میں۔کشمیر کے جبیں ہمت اوربہادرعوام کوقدم قدم پہ قابض بھارت کی جانب سے یکے بعد دیگرے گھٹاٹوپ نحوستوں ، بحرانوں اور ٹھوکروں کا سامنا ہے کہ جو ختم ہونے کانام نہیں لے رہے مگراس کے باوجود چٹان کی طرح اپنے موقف پرڈٹے ہوئے کشمیری بھارت کے چانکیہ پالیسی سازوں کو سر پیٹنے پرمجبورکررہے ہیں۔ اس لئے ظالم وجابر بھارت کی طرف سے جیلوں کے اندراسیران کشمیرکے ساتھ بزدلانہ جگر سوز مہم چھیڑ کر انسانیت کی تذلیل کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ قوم کشمیرکی جبیں ہمت کوجھکایا نہیں جاسکتا اور زہرناک کارروائیوں کے باوجود بھارت کوکشمیرمیں منہ کی کھانا پڑی گی۔ بلاشبہ تہاڑ جیل سے جموں کی مختلف جیلوںمیں قیدکشمیری اسیران کے ساتھ جوانسانیت سوزسلوک روارکھا جا رہا ہے مظالم کی دنیا کی یہ کر یہہ الصورت داستان ہے کہ جو آزادی کی تحریک جاری رکھے ہوئے کشمیری عوام کا سکھ چین چھین رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملت اسلامیہ کشمیر نے آج تک اپنے خلاف کئے جانے والے بہت سارے خون آشام آوپریشنز کے درمیان خود کو نہایت صبروثبات کے ساتھ حالات سے ایڈیجسٹ کر نے کا مظاہرہ کیا۔ بھارتی جیلوں میں دردوالم کی تصویر بنے ہوئے کشمیری اسیران کودیکھ کرگمان گزرتا ہے کہ یہ اکیسویں صدی میں نہیں بلکہ پتھرکا زمانہ ہے ۔ یہ محض جبراوربربریت کی ایک تصویرنہیں بلکہ یہ بھارت کے جمہوری چہرے پہ تمانچہ ہے۔ گوانتانامو میں امریکی بحری اڈے پر واقع اس بدترین تعذیب خانے کا نام ہے کہ جو 2001ء میں امریکہ کی طرف سے افغانستان پر جارحیت کے بعد قائم کیا گیا اوردنیاپھر سے مسلمانوں کولالاکے یہاں شرمناک طریقوں سے بدترین تعذیب کانشانہ بنایا جاتا رہاجس پرپوری دنیامیں ایک ہلچل پیداہوئی اوربدنام زمانہ اس تعذیب خانے کوبندکرنے کے لئے زوردارصدائیں بلندہوئیں۔تاہم بھارت کے تعذیب خانوں کی المناک روداد سامنے نہ آنے اوراندرکی قبیح صورتحال واشگاف نہ ہونے کے باعث گوانتانا موبے کی طرز پر دہلی کی تہاڑجیل سے لیکربھارت کے قائم کردہ تمام تعذیب خانوں کی طرف کوئی توجہ ہے اورنہ کوئی شنوائی ۔ان عقوبت خانوںمیں کشمیری اسیران کو برس ہابرس زیرتعذیب رکھاجاتا ہے اوران کے ساتھ انسانیت سوزسلوک روارکھاجاتا ہے ۔گوانتاناموبے کی طرزپران جیلوں میں پابندسلاسل کشمیری نوجوان کی روح فرسا اور شرمناک کہانیاں عالمی ضمیرکی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کے لئے پیچ وتاب کھا رہی ہے۔اسیران کشمیر کی تشدد زدہ دردناک کہانیوں کے اقتباسات انسانیت کو شرمسار کررہے ہیں اور ہرصاحب ضمیر کے ضمیر پردستک دے رہے ہیں۔ بدنام زمانہ دہلی کی تہاڑ جیل،بھارتی ریاستوں میں قائم اذیت خانے اورسرزمین جموںوکشمیر پر موجود بھارتی عقوبت خانوں میں لاتعداد کشمیری نوجوان مقید ہیںکہ جن کے ساتھ جانوروں سے بھی بدترسلوک کیاجا رہا ہے ۔ان اوچھے ہتھکنڈوں اورمختلف الجہات کی زور و زبردستی کا واحد مقصد نفسیاتی طور پر اسیران کشمیرکوہراسان کیاجانا ہے تاکہ وہ ہمت ہاربیٹھیں اورکشمیر پرجابرانہ تسلط کو بسروچشم قبول کرنے پرآمادہ ہوجائیں ۔ لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ دور وحشت کی آغوش میں جنم لینے والا انسان اپنی بقا کی جنگ میں طاقتور ہوتا ہے ۔ بھارتی جیلوں میں پابندسلاسل اورپابہ زنجیرکشمیری قیدیوںکے ساتھ روارکھے جانے والے انسانیت سوزسلوک جہاں بھارتی استبدادی چہرے کوبے نقاب کرتاہے،وہیںبھارت کی جیلوں میں بند کشمیریوں کے ساتھ روا رکھے جارہے جابرانہ ،ظالمانہ اورپرتشدانہ سلوک دنیا میں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے اداروں کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ بین الاقوامی تنظیموں خاص کر اقوامِ متحدہ انسانی حقوق کمیشن، ایشیا واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کی یہ منصبی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مختلف جیلوں میںبندکشمیری محبوسین کی زندگیوں کی سلامتی کو یقینی بنائیں اور زخمیوں کے خاطرخواہ علاج ومعالجے کے لیے انتظامیہ کوپابند بنائیں۔ کشمیری قیدیوں کو محض سیاسی انتقام گیری کے تحت سری نگرسے نکال کرجموں اور بھارت کی جیلوں میں منتقل کیا جاتا ہے۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ بھارت کے حکمران اخلاقی اقدار کھو چکے ہیں اور اسی لیے وہ نہتے محبوسین اور تحریک آزادی کشمیرکے متوالوں پر اوچھے اور غیر انسانی سلوک روارکھتے ہیں۔ اسیران کشمیرکے حوالے روارکھے جانے والے سلوک سے ہر سنجیدہ فکر شہری کو دہلا کے رکھ دیا، کہ اکیسویں صدی کے اس دور میں ، جب ہم تہذیب و ترقی کے ساتویں آسمان کو چھونے کے دعوے کر رہے ہیں، کیا ایسا ممکن ہوسکتا ہے؟۔ یہ بات بتانے کی شاید ہی ضرورت ہو کہ کسی کے قید ہونے سے اسکے شہری اور بنیادی حقوق متاثر نہیں ہوتے ۔عالمی قوانین کی مختلف دفعات کے تحت عام لوگوں کو جو حقوق حاصل ہیں وہ نظر بندوں، زیر سماعت قیدیوں اور سزا یافتہ افراد کو بھی میسر رہتے ہیں اور اس میں کسی قسم کا دست و برد حقوق انسانی کی پامالیوں میں شمار ہوتا ہے۔ قیدیوں کے حقوق کے حوالے سے بین الاقوامی کنونشن اور اقوام متحدہ کی ہدایات بھی یہی ہیں۔ ان قوانین کے تحت اس بات کی وضاحت موجود ہے کہ جیل خانہ جات میں قیدیوں کے سدھار اور بحالی پر توجہ مرکوز رہنی چاہئے نہ کہ سزا و تشدد کا وطیرہ اختیار کیا جائے۔ لیکن جب کشمیری اسیران کامعاملہ درپیش ہوتو یہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔

 

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز