97

مجھے ہے حکم اذان لا الہ الا اللہ

ہم مسلمان خاص طور پر پاکستانی اپنے اکثر فیصلے دماغ سے نہیں دل سے کرتے ہیں.......

اس کی ایک مثال ہماری سیاسی صورتحال ہے اس سوشل میڈیا کے دور میں ہمیں تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں کے قول و فعل کا تضاد پتا ہے......

لیکن اس کے باوجود ہمارا نظریاتی یا دلی جھکاؤ جس جماعت کی طرف ہے اسے سات خون بھی معاف ہیں اور مخالف جماعت کا صحیح عمل بھی اگر وہ ہمارے نظریات سے مطابقت نہیں رکھتا تو قابل گردن زنی ہے.........

ایسے ہی ہمارے دینی معاملات ہیں....

مسلمان فقہ حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی، اہلحدیث اور فقہ جعفریہ میں بٹے ہوئے ہیں اور کئی فرقوں میں تقسیم در تقسیم بھی ہے..........

لیکن کیونکہ وہ چند فقہی مسائل میں اختلاف رائے کے باوجود کسی نہ کسی امام کی پیروی کرتے ہیں.. اس وجہ سے وہ اسی فقہ کے مقلد یا ذیلی شاخ کہلاتے ہیں.....

ہر فقہ کے پیروکاروں یا علماء کے پاس اپنی بات کے حق کے لئے کتب احادیث کے ٹھوس حوالہ جات ہیں.. یہ اور بات ہے کہ اہل تشیع اور دوسرے فقہ کی کتب احادیث اور روایات میں فرق ہے........

لیکن کیونکہ اس وقت کے علماء کرام اور بزرگانِ دین کے متعین کردہ معیار کے مطابق یہ کتب احادیث تھی اور پھر ان کے مطابق ہر فرقے کے علماء نے مختلف فقہی مسائل بیان کئے.....

اس وقت موجود لوگوں نے اپنی سمجھ کے مطابق جو سب سے بہتر لگا اس پر عمل کیا تو یہ بعد میں آنے والوں کے لئے حجت اور مختلف فرقوں کی بنیاد بن گئے .........

اس میں سب سے اچھی بات یہ تھی کہ کسی بھی امام نے دوسرے امام کے پیروکار کو مذہب سے خارج نہیں کیا. لیکن آج اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود ہم سنی سنائی باتوں کے تحت ایک دوسرے کو مذہب سے خارج کر رہے ہیں........

جو وقت ہمیں امت مسلمہ کی بہتری اور بھلائی کے لئے دینا چاہیے تھا وہ ہم ایک دوسرے کے ایمان پر شک کرنے میں ضائع کر رہے ہیں.........

ہم لوگ یہ نہیں سمجھتے جب تک ہم اس لایعنی بحث سے نہیں نکلتے ہم کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتے........

اس سچ کو سب سے پہلے ہمارے علماء کرام نے ہی سمجھا.. مشرف دور میں متحدہ مجلس عمل بنی... جس میں تمام مکاتب فکر کے علماء کرام شامل تھے...

 جو علماء دوسرے فرقے کے عالم کی اقتداء میں نماز پڑھنے والے کے ایمان کو مشکوک سمجھتے ہوئے تجدید ایمان کا مشورہ دیتے تھے... ان کی ایک دوسرے کی اقتداء میں نماز پڑھتے ہوئے تصاویر اخبارات میں خصوصی طور پر شائع ہوئیں..........

اور ان تمام دینی جماعتوں نے اس وقت کے مطابق دنیاوی اور دینی فائدہ اٹھایا... جب کہ ہم میں سے کسی کو توفیق نہیں ہوئی. کہ ہم منبر رسول پر بیٹھے ان لوگوں سے سوال کریں کہ جو ہمارے لئے حرام تھا وہ آپ پر حلال کیسے ہو گیا.......

اب وقت آگیا ہے کہ ہم بھی جاگ جائیں... یہ سمجھ لیں کہ فرقہ واریت صرف ان نام نہاد علماء کے گھر پالنے کے لئے ہے...

جو وقت ہم ایک دوسرے کے مسلک کو غلط ثابت کرنے میں دے رہے ہیں وہ وقت ہمیں اپنی بہتری کے لئے صرف کرنا چاہیے..اور اس دنیا کی بہتری کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے.....

ورنہ ہماری وہ حالت ہو گی. جو ہلاکو خان کے بغداد پر حملے کے وقت ہوئی.. جب ہلاکو نے بغداد پر حملہ کیا تو علماء اس وقت یہ بحث کر رہے تھے کہ ایک وقت میں سوئی کے ناکے سے کتنے فرشتے گزر سکتے ہیں...

یا جنگ کی تیاری کے بجائے فضول مناظرے کر رہے تھے جبکہ حالات کا تقاضہ تھا وہ لوگوں کو جہاد کے لئے تیار کریں اور نتیجتاً ہلاکو نے بغداد کو تباہ و برباد کر دیا......

بشکریہ اردو کالمز