124

لاہور میں مسیحیوں کی آمد اور عبادت گاہیں

اس سوال کو ہمیشہ غیر اہم سمجھا گیا کہ لاہور میں مسیحیت کے پیروکار سب سے پہلے کب آئے اور یہاں مسیحیت کیسے عام لوگوں تک پہنچی۔ اس سوال کو ہندوستان میں انگریز اور پرتگالیوں کی آمد کے ساتھ گڈ مڈ کر دیا جاتا ہے۔ یوں تاریخ کا اہم معاملہ عدم توجہ کا شکار رہا۔ نقوش کے لاہور نمبر میں اس نوع کی معلومات موجود ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ اکبر بادشاہ کے عہد میں لاہور پہلی بار بین الاقوامی حیثیت کا حامل شہر بنا۔ کچھ پادری اکبر کے دربار میں حاضر ہوئے۔ مسیحیوں کا یہ تبلیغی مشن تھا۔ اکبر مختلف ادیان‘ عقائد اور علمی نکات سمجھنے کا شائق تھا۔ ان مسیحیوں کو اکبر نے خود مدعو کیا۔ ان سے انجیل مقدس کے مطالب سمجھنے کی کوشش کی۔ اکبر نے 1591ء میں لاہور آنے والے پادریوں کو اجازت دی کہ اگر وہ چاہیں تو اپنے مدارس قائم کرسکتے ہیں۔ اکبر نے مشن کے اراکین کو شاہی قلعہ میں ٹھہرایا‘ ان کی تکریم کی۔ پادریوں نے قلعہ میں اپنا مدرسہ شروع کر دیا۔ جہاں امرا کے بچے تعلیم حاصل کرتے‘ اکبر کا بیٹا اور پوتا بھی ان میں شامل تھے۔ پادری ان بچوں کو پرتگالی زبان بھی سکھاتے‘ ان کا خیال تھا کہ اکبران سے متاثر ہے اور وہ جلد عیسائیت قبول کر لے گا۔ جب ایسا نہ ہوا تو مایوس مشن واپس جانے لگا۔ 1594ء میں پادریوں کا ایک دوسرا گروہ آ گیا۔ کچھ لوگوں نے مسیحیت قبول کرلی۔ حلب کے ایک عیسائی مرزا سکندر نے اپنی کچھ جائیداد اور چھ سو روپے نقد مشن کو دیئے تاکہ وہ عیسائیوں کے لیے الگ قبرستان کی جگہ خرید سکیں۔ 1612ء میں مزنگ کے پاس ایک گائوں ہری پھلواری میں بارہ بھیگہ زمین بمعہ ایک پختہ کنوئیں کے خریدی گئی۔ یہ زمین اس لکھی محلہ والی جگہ کی ہے جہاں بعد میں کیتھڈرل سکول و گرجا گھر‘ ریگل سینما کے سامنے آج بھی موجود ہے۔ 1613ء میں جہانگیر ان پادریوں سے ناراض ہو گیا۔ وجہ یہ بنی کہ پرتگالیوں نے مکہ مکرمہ سے حاجیوں کو واپس لانے والے چار جہازوں پر ڈاکہ ڈالا‘ ایسی سرگرمیوں کے باعث لاہور کے گرجے کبھی بند ہوتے اور کبھی کھل جاتے۔ اورنگ زیب نے 1660ء میں ایک فرمان کے ذریعے فرنگی پادریوں سے یہ جگہ خرید لی۔ محققین کا خیال ہے اوریئنٹل کالج کے مشرق کی جانب انارکلی بازار میں دھنی رام روڈ کے سامنے یہ گرجا تھا۔ آج اس جگہ سینٹ فرانسس سکول اور کیتھولک چرچ ہیں۔ پادریوں کی بدولت اس وقت کے نظام تعلیم میں معقولات کو پھر سے سہارا مل گیا لیکن یورپ کا تعلیمی نظام اس وقت مذہب کی بالادستی پر استوار تھا اس لیے زیادہ فائدہ نہ ہو سکا۔ لاہور کینٹ جو چھائونی میاں میر کہلاتا رہا ہے وہاں 1850ء سے 1856ء کے چھ سال میں ایک گرجا تعمیر کیا گیا۔ کنہیا لال کے مطابق کیپٹن جی این شارپ جو بنگال میں انجینئر تھا اس کی تجویز و اہتمام سے گرجا قدیم طرز تعمیر پر بنایا گیا۔ گرجا کی چھت قینچی وار ہے جس پر پتھر کی تختیاں چسپاں ہیں۔ گرجے کا اندرونی فرش سنگ مر مر و سنگ سیاہ کا ہے۔ فرش پر پتھر کا ایک ٹکڑا گلاب کے پھول کی صورت میں نصب کیا گیا ہے۔ گرجے کی تعمیر پر نوے ہزار روپیہ خرچ ہوا۔ 33 ہزار انگریز سرکار نے دیا۔ باقی ماندہ چندے سے جمع ہوا۔ یہ گرجا گھر سینٹ میری میگلینز کہلاتا ہے۔ کنہیا لال انارکلی بازار کی مغربی جانب ایک رومن کیتھولک گرجا کا بتاتے ہیں۔ اس کا احاطہ بہت وسیع تھا۔ مشرق کی طرف ایک بڑا گیٹ اور شمال کی سمت چھوٹا دروازہ ہے۔ گرجا گھر درمیان میں ہے۔ سڑک کی سمت ایک عالی شان کوٹھی تعمیر کی گئی جہاں پادری حضرات قیام کرتے۔ مال روڈ سے نئی انارکلی بازار میں داخل ہوں تو بائیں ہاتھ پارک کی جگہ ہے‘ تھوڑا آگے بڑھیں تو بائیں ہاتھ ایک عمارت ہے۔ بظاہر کتابوں کی دکان معلوم ہوتی ہے جہاں مسیحی عقائد سے متعلق انگریزی اور اردو میں کتب‘ پمفلٹس اور تبلیغی مواد دستیاب ہوتا ہے۔ یہ گرجا 1898ء میں تعمیر ہوا۔ مغلوں کے بعد سکھ عہد میں برطانوی افسروں کے مقابلے کے لیے فرانسیسی اور دیگر یورپی افسر بھرتی کئے گئے۔ انگریز اقتدار قائم ہوا تو شمالی ہندوستان میں پھر سے عیسائی پادری آنے لگے۔ یہ پادری انگریز افواج کے ساتھ 1840ء سے تھے لیکن خود کوصرف چھائونیوں تک محدود رکھتے۔ جان کے خوف سے شہر میں کم آیا جایا کرتے۔ تبلیغ مذہب سے انہیں کوئی کام نہ تھا۔ لاہور کے رومن کیتھولک مشن کا دعویٰ مگر یہ ہے کہ 1830ء میں ان کے چند پادری تبلیغ کے لیے لاہورآئے‘ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ان کی تعظیم کی۔ 1847ء میں ایک مشنری فادر کفرل آگرہ سے لاہور آیا اور مقامی عیسائیوں کی مدد سے اس نے ایک گرجا تعمیر کیا۔ اس گرجے کا مقام اور آثار معدوم ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ گورنمنٹ کالج کا جمنیزیم دراصل وہی گرجا ہے۔ اس جمنیزیم کی تعمیر 1857ء کی تختی سے معلوم ہوتی ہے۔ تعمیر کا انداز رومن ہے‘ لاہور میں اکبری عہد کے گرجا کے بعد سب سے قدیم گرجا یہی ہے۔ لاہور میں زیادہ تر رومن کیتھولک مشنری کام کرتے رہے۔ یہ لوگ پرتگال‘ سپین‘ اٹلی سے آیا کرتے۔ امریکی پروٹسٹنٹ مشنری جان نیوٹن اور چارلس فورمین پہلی بار 21 نومبر 1849ء میں لاہورآئے۔ ان کا مقصد لاہور میں انگریزی تعلیم کو عام کرنا تھا تاکہ مقامی آبادی کو انگریزی بولنے والے مشنریوں کی گفتگو سمجھنے کے قابل بنایا جا سکے۔ ان دونوں کو شہر میں رہنے کے لیے مکان کی تلاش تھی۔ میرے دوست پادری اعجاز گل کا کہنا ہے کہ نیوٹن اور فورمین کو ہیرا منڈی میں قیام گاہ ملی۔ یہاں ڈاکٹر فورمین نے 19 دسمبر 1849ء کو ایک سکول کھولا۔ صرف تین طالب علم آئے۔ دو ہندو اور ایک مسلمان۔ طالب علموں کو فی کس روزانہ دو پیسہ وظیفہ دیا جاتا۔ آج یہ سکول رنگ محل مشن ہائی سکول کہلاتا ہے۔ نولکھا چرچ لاہور کا مشہور گرجا ہے‘ یہاں ایک پرانے چرچ کی عمارت تھی۔ 1936ء میں پرانی عمارت گرا کر نئی عمارت امریکی طرز تعمیر کے مطابق استوار کی گئی۔پھیلتے لاہور کے ساتھ بہت سے نئے گرجا گھر اور مسیحی تعلیمی ادارے قائم ہو چکے ہیں۔

 

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز