52

خدارا! قومی سیاسی ابلاغ کو مینج کریں

روایتی قومی سیاسی ابلاغ کیا ہے؟ پاور کوریڈورز کے اپنے اپنے ذرائع سے اپنی اپنی ابلاغی ضروریات پوری کرنے والا ابلاغ۔ اس ملک گیر سیاسی عمل کا سب سے بڑا ٹول ماس میڈیا (روایتی ذرائع ابلاغ عامہ) رہا۔ اب اس میں ایک بڑا قومی اور عالمی سطح کا سوشل میڈیا سے ہونے والا وہ ابلاغی دھارا ہے جو کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کی ایڈوانسمنٹ نے عوام الناس کو عطا کیا ہے۔ یہ بڑی تیزی سے روایتی مین اسٹریم میڈیا کے مقابل قومی ابلاغی دھارے میں جگہ بنا رہا ہے بلکہ بنا چکا ہے۔ حصولِ اقتدار کے کھلاڑی اور حکومتی راہ داریوں میں بالائی سطح کے طبقات ہی مرکزی ابلاغی دھارے کے بڑے اسٹیک ہولڈرز ہوتے ہیں، جن کا غالب حصہ ریاستی اداروں کی شکل میں اپنا کردار اپنی آئینی حدود یا اس سے تجاوز کرکے ادا کر رہا ہوتا ہے۔ حکومت، سیاسی جماعتیں، عدلیہ، الیکشن کمیشن، ٹربیونلز، بیوروکریسی خصوصاً پولیس اور دیگر معاون ادارے ان اسٹیک ہولڈرز میں سرگرم رہتے ہیں۔پاکستان میں تو انتخابی عمل خصوصاً پولنگ کو پُرامن اور محفوظ بنانے کے لیے فوج کو بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اسے سیاسی جماعتیں باہمی غیر علانیہ اتفاق سے مدعو ہی نہیں کرتیں، یہ (فوج) خود بھی اپنے جزوی روایتی تاریخی مجموعی کردار کے حوالے سے مانیٹرنگ کا غیرعلانیہ کردار نبھا رہی ہوتی ہے کہ ملکی سیکورٹی سے متعلق امور سوسائٹی سے بھی جڑے ہوتے ہیں۔ کئی ایسے بحران آئے کہ یہ امکانی خلا اور موجود بڑھتی تشویش کے بڑے خطرے میں ڈھلنے سے پہلے خود کو ہی اقتدار کا ناگزیر مستحق سمجھ کر اقتدار سنبھالنے پر (بجا طور) یا اپنے ہی متنازعہ تجزیے کے جواز سے حکومت پر براجمان ہو جاتی ہےجس کی تصدیق فوجی حکومتوں کے قیام پر عوامی استقبال و اطمینان کے واضح ردعمل سے ملتی ہے لیکن یہ بھی ہے کہ آنے والے وقت میں جب سیاسی اور خود فوج کے اپنے تجزیے اور عدالتی فیصلے آئے تو ثابت ہوا کہ فوج کے اقتدار میں آنے کے تجزیے سائنٹیفک نہیں تھے فقط صورتحال کے دبائو اور سیاست دانوں اور فوج سے مل کر تشویشناک بحران کو مینج کرنے کی صلاحیت کے فقدان سے غلط فیصلے ہوئے۔ ہمارے ہاں ایک بیانیہ عام ہو گیا ہے کہ ’’ایسا وقت پر یا پورا سچ نہ بولنے کی وجہ سے ہوا‘‘۔ یعنی نازک وقت میں قومی سیاسی دھارا اس نعمت یا آزادی سے محروم رہا۔ خاکسار کی رائے میں ایسا نہیں ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ جب متعلقہ ریاستی ادارے خصوصاً پارلیمان، عدالتیں، بیوروکریسی سب سے بڑھ کر سیاسی جماعتیں اپنے آئینی اور قومی فرائض و کردار ادا کرنے میں ناکام ہو جاتی ہیں تو عوام کا یہ یقین پختہ ہو جاتا ہے کہ اب یہ (اسٹیک ہولڈرز) بحران کو سنبھالا نہیں دے سکتے۔ سو جو راہ بھی اس (بحران) سے نسبتاً زیادہ ہموار نظر آتی ہے اسے اختیار کیا جاتا ہے حالانکہ مطلوب منزل کی طرف وہ بھی نہیں جا رہی ہوتی۔اب جو درست تجزیے کی استعداد کے اس فقدان کی وجہ سے غلط رویے اور عادتیں پختہ ہو چکی ہیں، قومی ابلاغی دھارے میں اسی وجہ سے یہ غلبہ پایا جاتا ہے جو بتدریج عدم استحکام کو بڑھاتا سیاسی و آئینی بحرانوں کا سبب بنتا ہے۔ واضح رہے موجودہ پُرخطر قومی ابلاغی دھارا اس کی انتہائی شکل ہوتی ہے۔

اب قومی ابلاغی دھارے میں عوام کے ہاتھ لگے بڑے شیئر نے تو نقشہ ہی تبدیل کردیا ہے۔ ناچیز کی رائے میں تو بہت سے منفی پہلوئوں کے ساتھ ساتھ اس میں برکات و ثمرات زیادہ نظر آ رہے ہیں۔ پیپلز ایمپاورمنٹ، عوامی بیداری، عوام مفادات کی نشاندہی اور تحفظ، صحیح اور غلط کی نشاندہی سوشل میڈیا کے زور پر رائے عامہ کے بنتے بدلتے زور پکڑتے قومی سیاسی دھارے اسٹیٹس کو کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ بہت کچھ وہ ہو رہا ہے جو مطلوب تھا لیکن ساتھ وہ بھی جو مکمل غیر مطلوب ہے۔ اب پاکستان کے متفقہ لیکن کبھی بھی مکمل نافذ العمل نہ ہونے والے آئین کی ’’سخت متنازعہ گنجائش،فلور کراسنگ کرنے والوں کو بھی ’’وزیر اعظم‘‘ کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک میں ووٹ دینے کا حق‘‘ اپوزیشن کے حاصل کرنے سے جو گھمبیر آئینی و سیاسی بحران پیدا ہوا ہے، اس نے بے حد تشویشناک شکل اختیار کرلی ہے جس کا سلسلہ چڑھائو قومی سیاسی ابلاغی دھارے میں چلنے والے پھٹتے پٹاخوں سے ہو رہا ہے، جو دھماکے بن سکتے ہیں۔ یہ ابلاغی دھارا پہلے ہی کم اشتعال انگیز نہ تھا کہ عمران حکومت بنتے ہی خالصتاً پروپیگنڈہ اسٹائل میں وزیراعظم کے لیے ’’سلیکٹڈ‘‘ کی غیرمعمولی تکرار کا آغاز ہوا جو تادم حکومت جاری رہا۔ مہنگائی کی دہائی بھی ’’عوامی مسئلے کی نشاندہی حل اور تجزیے‘‘ سے زیادہ حکومتی نااہلی اوربد دیانتی ثابت کرنے کے لیے پروپیگنڈہ مہم اسٹائل میں ہی جا ری رہی۔ مولانا صاحب کی تخلیق پی ڈی ایم نے خود کو متعارف سے زیادہ منوانے کے لیے جو ملک گیر جلسوں کا آغاز کیا ان میں مہنگائی اور حکومت کی ناقص کارکردگی سے زیادہ فوج پر بنام تبرا کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اب جو مہنگائی کی وبا کی آڑ میں آئین کی پتلی گلی سے نکل کر اقتدار کی مدت کا بڑا حصہ مکمل کرتی عمران حکومت کو اکھاڑنے کی حماقت کی گئی تو اندر ’’سندھ ہائوس‘‘ میں لگا ہارس ٹریڈنگ کا بازار ہی نہیں بیرونی سازش اور مداخلت جیسی اشتعال انگیز واردات کی پُرخطر قومی بحث نکل آئی۔ حکومت بنتے ہی نئے وزیر داخلہ نے اپنے دامن پر سخت الزامات کیساتھ انتقامی اقدامات اور مشتعل ابلاغ کی سیریز شروع کردی جبکہ کمال طاقت پکڑتی عمرانی اپوزیشن میں شیخ رشید کا شوخ سیاسی ابلاغ شعلہ بیانی میں تبدیل ہو رہا ہے۔ جبکہ امپورٹڈ حکومت نامنظور، کرائم منسٹر اور مقصود چپراسی کے پروپیگنڈہ اسٹائل پی ٹی آئی کے بیانیوں نے حکومت کو اقتدار میں آتے ہی سخت پریشان کیا ہواہے۔ خانِ اعظم کا محتاط ردعمل اب عوام میں مسلسل بڑھتی مقبولیت اور سوشل میڈیا سے ملنے والی غیر معمولی اور موثر ترین سپورٹ کے نتیجے میں بے باک ہونے لگا ہے۔ پھر مریم صاحبہ کی بے باکی نے بھی اس کی حوصلہ افزائی میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ اب آئی ایس پی آر کی طرف سے پریشانی کا اظہار کیا گیاہے کیونکہ یہ ایک سنگین معاملہ ہے۔ گویا حکومت چلانے بنانے اور سنبھالنے کے سب ہی عملاً سرگرم اسٹیک ہولڈر پریشان کن قومی ابلاغی دھارے میں بطور ذریعہ شریک ہوگئے ہیں۔ جبکہ ہمیں کمیونیکیشن واربمقابلہ ہتھیاروں و سرحدوں کی جنگ کا نیا نیا سبق ملا ہے۔ ابلاغی دھارا اتنا گھمبیر ہوتا جار ہا ہے کہ بحران کو کم کرنے کی بجائے بڑھا رہا ہے۔ قومی داخلی سلامتی و امن و استحکام کا کوئی ایسا اسٹیک ہولڈر بھی ہے جو سب کو ساتھ ملا کر باہمی اعتماد سے فقط پاکستان کیلئے اس بگڑتے مہلک قومی ابلاغی دھارے کو مینج کرے۔ متنازعہ مقدمات اور گرفتاریوں اور چھاپوں سے نہیں فقط اور فقط ابلاغ سے۔ تشویش تو یہ ہے کہ حکومت خود اس میں پیش پیش ہے۔ خدارا! سمجھو اور صورتحال کو سنبھالو۔

بشکریہ جنگ نیوزکالم