1668

صحابہ کرام کی سخاوت

 انبیاء کرام کے بعد سب سے بڑا مقام آقا دوعالم حضرت محمد مصطفی ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کا ہے۔قرآن مجید و فرقان حمید اور کتب احادیت صحابہ کرامؓ کی شان و عظمت کی گواہی دیتی ہیں۔یہ صحابہ کرامؓ ہی کی محنت و لگن کا نتیجہ ہے کہ حجاز مقدس سے شروع ہونے والا مذہب اسلام آج دنیاکے کونے کونے میں پھیل چکا ہے اور بہت جلد مذہب اسلام کے ماننے والے پیروکاروں کی تعداد دنیا کے دیگر مذاہب سے بڑھ جائے گی۔ صحابہ کرامؓ کی عظمت کے کئی نمایاں پہلو ہیں، جن میں شجاعت، بہادری، قوت ایمانی، نبی کریم  ﷺ سے محبت، ایثار و الفت اورسخاوت جیسی عظیم صفتیں انکی شان کو دیگر انسانوں سے ممتاز کرتی ہیں۔ آج کی تحریر میں صحابہ کرام ؓ کی عظیم صفت سخاوت کامختصر ذکرکرنے کی سعادت حاصل کی جائے گی۔کتب احادیث میں صحابہ کرام ؓ کی سخاوت کے نمایاں ترین واقعات میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا غزوہ تبوک کے موقع پر سخاوت کا واقعہ بہت ہی مشہور ہے۔ حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم  ﷺ نے ہمیں صدقہ کا حکم دیا اس وقت میرے پاس مال تھا۔ چنانچہ میں نے سوچا آج تو میں حضرت ابوبکر ؓ سے سبقت لے جاؤں گا، چنانچہ میں آدھا مال لیکر نبی کریم  ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو نبی کریم  ﷺ نے فرمایا کہ عمر ؓ! گھر والوں کے لئے کیا چھوڑا؟ عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ میں گھر والوں کے لئے اپنا آدھا سامان چھوڑ آیا ہوں۔ اسکے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ اپنا مال لیکر آئے اور نبی کریم  ﷺ کے پوچھنے پر جواب دیا کہ میں نے اپنے گھر والوں کے لئے صرف اللہ اور اسکے رسول ﷺ کو چھوڑا ہے۔ حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوبکر ؓ سے کہہ دیا کہ اب آئندہ میں آپ سے سبقت لے جانے کا مقابلہ نہیں کروں گا۔اسی طرح حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم  ﷺ نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا کہ کسی کے مال نے مجھے اتنا نفع نہیں پہنچایا جتنا ابوبکر ؓ کے مال نے نفع پہنچایا ہے۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر ؓ رونے لگے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول  ﷺ میں اور میرا مال تو صرف آپ ہی کے لئے ہے۔غزوہ تبوک ہی کے موقع پر سیدنا عثمان غنی ؓ نے مثالی قربانی کا ثبوت دیتے ہوئے 300  اونٹ مع سازوسامان صدقہ فرمائے۔پھر ایک ہزار اشرفیاں لیکر نبی کریم  ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حدیث کے راوی فرماتے ہیں کہ وہ اشرفیاں نبی کریم  ﷺ اپنے دست مبارک سے الٹتے پلٹتے جاتے تھے اور یہ فرماتے جاتے تھے کہ آج کے بعد عثمان ؓ کچھ بھی کرتے رہیں، انکا کچھ نہ بگڑے گا مطلب یہ ہے کہ اس صدقہ کی قبولیت کی برکت سے انہیں کامل خیر کی توفیق نصیب ہوگی۔ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں قحط سالی ہوئی، حضرت عثمان غنی ؓ نے شام کے علاقہ سے 100   اونٹ غلہ منگوایا، جب غلہ سے بھرے اونٹ مدینے پہنچے تو شہر کے تاجر آپ کے پاس آئے اور درخواست کی کہ اے امیر المومنین ؓ! جتنے درہم میں آپ نے یہ غلہ شام سے خریدا ہے، اسی کے برابر نفع دیکر ہم یہ غلہ خریدنے کو تیار ہیں۔حضرت عثمان ؓ نے جواب دیا کہ اس سے زیادہ قیمت لگ چکی ہے تو تاجروں نے کہا کہ اچھا دوگنا نفع پر دے دیجئے۔ آپ نے جواب دیا کہ اس سے بھی زیادہ کا بھاؤ لگ چکا، تاجر بھی نفع بڑھاتے رہے تاآنکہ پانچ گنا نفع پر آگئے اور حضرت عثمان غنی ؓ پھر بھی تیار نہ ہوئے اور یہی فرماتے رہے کہ اسکی زیادہ قیمت لگ چکی ہے۔ یہ سن کر تاجروں نے کہا کہ آخر کس نے آپ سے زیادہ قیمت لگادی۔ مدینہ کے تاجر تو ہم ہی ہیں، حضرت عثمان غنی ؓ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے دس گنا عطا کرنے کا فیصلہ فرمایا ہے تو کیا تم لوگ اتنا یا اس سے زیادہ دینے پر راضی ہو۔ تاجروں نے انکار کردیا۔ پھر حضرت عثمان غنی ؓ نے اعلان کیا کہ اے لوگو! میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ یہ سارا غلہ مدینہ کے فقراء اور مساکین پر صدقہ ہے۔اور تمام غلہ سب محتاجوں میں تقسیم فرما دیا۔ابوجعفر کہتے ہیں کہ اگرچہ انتقال کے وقت تک حضرت علی ؓ کی سالانہ آمدن ایک لاکھ درہم تک پہنچ گئی تھی لیکن شہادت کے دن آپ پر ستر ہزار درہم قرض تھے، میں نے لوگوں سے پوچھا کہ آخر اتنا زیادہ قرض آپ پر کیسے ہوگیا تو جواب ملا کہ بات یہ ہے کہ آپ کے وہ دوست احباب اور رشتہ دار جن کا مال غنیمت میں باقاعدہ حصہ مقرر نہیں تھا آپ کے پاس آکر سوال کرتے تو آپ انہیں مرحمت فرماتے جاتے تھے۔ آپ کی وفات کے بعد حضرت حسن ؓ نے آپکی جائیداد وغیرہ بیچ کر قرض ادا کیا اور ہر سال حضرت علیؓ کی طرف سے سو غلام آزاد فرمایا کرتے تھے۔ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن الزبیر ؓ نے اپنی خالہ محترمہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں دو تھیلیوں میں بھرکراسی ہزار درہم روانہ فرمائے۔ حضرت عائشہ ؓ اس دن روزہ سے تھیں مگر صبح سے طبق میں درہم رکھ کر فقراء اور محتاجوں کو تقسیم کرنے تشریف فرما ہوئیں اور شام تک ساری رقم تقسیم فرمادی۔ ایک درہم بھی باقی نہ رہا۔ شام کو خادمہ افطار کے لئے حسب معمول روٹی اور تیل لائی اور عرض کیا کہ اماں جان، اگر آپ اس مال میں سے ایک درہم بچا کر اسکا گوشت منگوا لیتیں تو آج اسی سے افطار کرلیا جاتا۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ اگر تم پہلے یاد دلا دیتیں تو میں تمہاری خواہش پوری کردیتی۔
اللہ کریم ہم سب کو صحابہ کرام کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور اللہ کریم کی کروڑہاں رحمتیں نازل ہوں نبی کریم  ﷺ پر اور آپکی اہل بیت اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمیعن پر۔ آمین ثم آمین

بشکریہ اردو کالمز