67

نیشنل ایکشن پلان کا کیا ہوا ؟

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ’’نیشنل ایکشن پلان ۔(NAP)کا دوبارہ جائزہ لیا جا رہا ہے‘‘۔نیکٹا (NECTA)کا اجلاس فوری بلایا جائے گا‘کراچی میں ہونے والی دہشت گردی کے افسوسناک واقعے کی تحقیقات کی جا رہی ہے ‘وزیر داخلہ ملک کے تمام صوبوں کا دورہ کر کے سیکیورٹی صورت حال کا جائزہ لیں گے۔

پاکستان میں دہشت گردی کی حالیہ وارداتوں میں اضافہ اس وقت ہوا جب افغانستان میں طالبان نے حکومت سنبھالی حالانکہ ان کا وعدہ تھا کہ وہ افغانستان کی سرزمین کسی اور ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے لیکن پاکستان کو مطلوب وہ دہشت گرد جنھیں اشرف غنی حکومت نے گرفتار کر کے جیل میں ڈالا تھا‘ افغان طالبان نے اقتدار سنبھالتے ہی انھیں رہا کردیا اور تحریک طالبان پاکستان کے ممبران کو افغانستان بھر میں آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت دے دی ‘ ان ملک دشمنوں اور پاکستان میں موجود ان کے سہولت کاروں کے گٹھ جوڑ نے دہشت گردی میں اضافہ کردیا ۔یہ اضافہ اس امر کا متقاضی ہے کہ وطن کے محافظ ادارے ہمہ وقت مستعد رہیںاور دہشت گردوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں۔

چینی باشندوں کے خلاف دہشت گردی کے واقعے نے حکومت کو NAP کی یاد دلادی ۔ حکومت کو نیشنل ایکشن پلان کا خیال ہمیشہ ‘اس وقت آتا ہے جب لاشوں کی تعداد کم از کم پچاس سے زیادہ ہو یا مرنے والے غیر ملکی ہوں ‘ ورنہ ایک دو لاشیں تو روزانہ گرتی رہتی ہیں‘جو باعث تشویش نہیں ہوتیں۔ ہمارے سابق وزیر اعظم عمران خان کی سوئی تو کرپشن اور نواز شریف کی واپسی پر اٹکی رہی ‘ دہشت گردی ان کے لیے کوئی ایشو ہی نہیں تھا۔

نیشنل ایکشن پلان کیا ہے؟ اس کا دہشت گردی کے خاتمے سے کیا تعلق ہے؟آخرپوری سیاسی اور عسکری قیادت کیوں اس پر عمل درآمد کا مطالبہ کر رہی ہے؟ اس حقیقت کو جاننے کے لیے نیشنل ایکشن پلان اور اس پر عمل درآمد کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس ملک میں بہت سے منصوبے اور پلان بنائے گئے ہیں‘ان میں پنڈی سازش کیس ‘ لندن پلان ‘حیدر آباد سازش کیس اور شیخ مجیب کا اگر تلہ سازش کیس قسم کے منصوبے شامل ہوتے تھے ‘حکمرانوں کی نظر میں یہ سب منصوبے اور پلان ملک دشمن ہوتے تھے ‘صرف ایک منصوبہ ایسا بنا ہے جو ملک اور عوام کے فائدے میں ہے‘ یہ منصوبہ نیشنل ایکشن پلان(NAP) کہلاتا ہے ‘یہ پلان یا منصوبہ 16دسمبر 2014کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے کے المناک واقعے کے بعد بنایا گیا ۔

آرمی پبلک اسکول کے المناک واقعے کو تقریباً8سال گزر چکے ہیں‘اس المناک واقعہ کے بعد پوری قوم میں تشویش کی ایک لہر دوڑ گئی تھی ‘وزیر اعظم اور آرمی چیف نے تمام مصروفیات منسوخ کر کے پشاور کا ہنگامی دورہ کیا ‘ملک کی تمام سیاسی قیادت نے اپنی مصروفیات ترک کرکے 17دسمبر کو پشاور کے گورنر ہاؤس میں وزیر اعظم کی زیر صدارت آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کی۔

اس کانفرنس میں سیاسی جماعتوں کے علاوہ پاکستان کی مسلح افواج کی تمام قیادت معہ آئی ایس آئی چیف بھی موجود تھی ‘اس کانفرنس اور واقعے کی اتنی زیادہ اہمیت تھی کہ جناب عمران خان کو بھی اپنا دھرنا لپیٹ کر پشاور آنا پڑا‘سانحہ پشاور نے سیاسی قیادت کو متحد کردیا ‘سیاسی قیادت نے دہشتگردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ کو اپنی جنگ قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف بھرپور انداز میں لڑنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے طے کیا کہ یکسوئی کے ساتھ یہ جنگ اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک ایک بھی دہشت گرد موجود ہے۔

وزیر اعظم نواز شریف نے واضح اعلان کیا کہ اچھا اور برا کوئی نہیں ‘طالبان کے خلاف بلا امتیاز کارروائی ہوگی ‘اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ وزیر داخلہ کی قیادت میں تمام پارلیمانی پارٹیوں کے نمایندوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جائے ‘جو دہشت گردی کے خاتمے کا پلان آف ایکشن تیار کرکے قومی قیادت کو پیش کرے گی ‘قومی اور عسکری قیادت کی منظوری کے بعد ان پر عمل درآمد کیا جائے گا‘کمیٹی کے اجلاسوں کے بعد سفارشات دوبارہ قائدین کو پیش کی گئیں۔

اس سلسلے میں24دسمبر 2014 کے تاریخی دن کو وزیر اعظم کی زیر صدارت تمام پارلیمانی جماعتوں کے رہنماؤں کے اجلاس میں وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن جنگ شروع ہوگئی ہے ‘ ’’کمزور فیصلے کیے تو قوم مطمئن نہیں ہوگی، ہم قوم کے مفاد میں فیصلے کریں گے‘‘اس اجلاس میںآرمی چیف سمیت دیگر فوجی قیادت بھی موجود تھی ‘اس مسئلے پر مزید تفصیل سے قبل چند حقائق ‘جن سے اس المناک واقعے کا پس منظر زیادہ واضح ہو جائے گا۔

جنرل مشرف صاحب فرماتے ہیں کہ ’’افغانستان پر امریکی حملے کے بعد انھوں نے خفیہ ادارے کے ذریعے طالبان کو کھڑا کیا‘ تاکہ افغانستان کے اندر بھارتی ایجنسی سے پراکسی جنگ لڑی جائے‘‘ ذرا سوچیں ‘پشاور کے اے پی ایس میں بچوں کو شہید کرنے والے کون تھے؟ آج بھی اس سانحہ کا ذکر ہو جائے تو دل خون کے آنسو روتا ہے ۔

ادھر ہم نے بھی افغانستان کو پراکسی وارزکا میدان بنائے رکھا‘تو دیگر مسلمان ممالک نے پاکستان میں اپنی فرقہ وارانہ ’’پراکسی وار‘‘ جاری رکھی ‘ہم اپنے ہاں دوست ملکوں کی پراکسی وارز روکنے میں سنجیدہ نہیں رہے‘ یوں پاکستان کے اندر دہشت گرد اپنے اپنے ہدف کو نشانہ بناتے رہے‘ ہم کیوں بھول گئے کہ جن طالبان کو ہم استعمال کر سکتے ہیں ‘انھیں کوئی اور بھی زیادہ پیسے دے کر استعمال کر سکتا ہے۔

اگر طالبان ہمارے ہاتھ میں کھلونا بن سکتے ہیں تو وہ امریکا، بھارت، چین، ایران اور روس کے ہاتھ میں بھی کھلونا بن سکتے ہیں‘ہماری اس پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم پوری دنیا میں انتہا پسند مشہور ہو گئے ‘2007سے نیٹو فورسز کے کمانڈرز نے پاکستان کو افغان طالبان کے حوالے سے انتباہ کرنا شروع کردیا تھا لیکن ہم نے کوئی پروا نہیں کی ۔ دنیا میں کوئٹہ شوریٰ کا شور مچا رہا لیکن ہم دنیا کو جھٹلاتے رہے۔

افغان طالبان کی لیڈر شپ پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ حاصل کرکے کراچی، اسلام آباد، پشاور اور دیگر شہروں میں جائیدادیں خریدتے رہے جب کہ ان کے اخراجات پاکستانی قوم برداشت کرتی رہی۔پاکستان کے عوام کی خوش قسمتی کہ جنرل راحیل شریف آرمی چیف بن گئے ‘وہ افغانستان گئے اور مطالبہ کیا کہ افغانستان میں چھپے پاکستانی طالبان کو ختم کیا جائے اور ساتھ یہ وعدہ کر آئے کہ پاکستان کی سر زمین کو افغانستان کے خلاف استعمال نہیں کیا جائے گا‘ان کے اقدامات اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ واقعی دہشت گردی اور انتہا پسندی کا خاتمہ چاہتے تھے ۔

اب اپنے اصل موضوع پر آتے ہیں‘24دسمبر 2014کو اعلیٰ سیاسی اور فوجی قیادت کی اے پی سی میں وزیر داخلہ کی سربراہی میں قائم مختلف پارٹیوں کی کمیٹی کی تجاویز پر غور کیا گیا اور اہم فیصلے کیے گئے‘ اسی رات کو وزیر اعظم نے قوم سے خطاب کیا اور دہشت گردی کے خلاف پوری قوم کے نمایندوں کی تجاویز پر مشتمل لائحہ عمل کا اعلان کیا ‘اس کو نیشنل ایکشن پلان (National Action Plane–NAP)کا نام دیا گیا۔

NAP بنیادی طور پر 20نکات پر مشتمل تھا ‘اس سلسلے میں ہر صوبے میں جنوری 2015میں Apexکمیٹیاں بنائی گئیں‘ان کمیٹیوں میں صوبائی سول اور ملٹری قیادت مل کر وزیر اعلیٰ کی قیادت میں فیصلے کرتی تھیں تاکہ NAPپر عمل درآمد کا عمل تیز کیا جائے۔نیشنل ایکشن پلان کاباقی قصہ بعد میں۔

بشکریہ ایکسپرس