حکمرانوں اور لیڈروں کے کان ایسی رسیلی آواز سننے کو بے تاب رہتے ہیں جس میں ان کی تعریف بیان ہو۔ گئے زمانوں میں بادشاہوں نے اس کا خاص اہتمام کررکھا تھا۔ اپنی تعریف سننا کس کمبخت کو برا لگے ہے، اور تعریف بھی ایسی کہ جس میں مدح سرائی ہو، قصیدہ گوئی ہو، مخالف پہ ہجو کے دُرے مارے گئے ہوں اور ممدوح کی شان میں ثنا خوانی کے نئے مینارے کھڑے کردیے جائیں۔ حکمرانوں اور لیڈروں کے کان ایسی رسیلی آواز سننے کو بے تاب رہتے ہیں جس میں ان کی تعریف بیان ہو۔ گئے زمانوں میں بادشاہوں نے اس کا خاص اہتمام کررکھا تھا۔ سوچیں کہ تخت پہ کس قدر ہلکی ذہانت اور نچلی آئی کیو کا بندہ بیٹھا ہوتا ہوگا کہ جو مٹھی بھر سونے کی اشرفیوں کے عوض اپنی مدح سنتا ہوگا۔ شہنشاہ اپنے شان میں کہی رباعی سن کہ خوش، شاعر بیچارے کی بیگم خوش۔ ایسی وِن وِن سیچویشن نے اردو ادب کو قصیدہ گوئی، مدح سرائی اور رباعی کے میدان میں خوب فائدہ پہنچایا۔ مرزا غالب بہادر شاہ ظفر کی شان میں لکھے ایک قصیدے میں کہتے ہیں: جس کا ہر فعل صورتِ اعجاز جس کا ہر قول معنیٔ الہام جاں نثاروں میں تیرے قیصرِ روم جرعہ خواروں میں تیرے مرشدِ جام ادھر قصیدہ تمام نہ ہوا کہ اُدھر بہادر شاہ ظفر نے اگلے چھ ماہ کا وظیفہ باندھ دیا۔ وہ اور بات کہ جاں نثار قیصرِ روم بہادر شاہ ظفر کو غریب الوطنی کی آزمائش سے بچانے رنگون کبھی نہیں آ یا۔ سچ ہے کہ خوشامد کہیں کا نہیں چھوڑتی۔ مرزا غالب بادشاہ سلامت کی قصیدہ گوئی کے باب میں اور بھی کئی جھنڈے گاڑتے مگر اردو کے ایک اور مایہ ناز شاعرشیخ محمد ابراہیم ذوق بادشاہ کے دربار میں اپنی گدی بلکہ کُرسی چھوڑنے کو تیار نہ تھے۔ ذوق اس وقت بادشاہ کی شان میں جس پائے کے قصیدے کہہ رہے تھے مرزاکی جگہ بمشکل بنتی تھی۔ پیشہ ورانہ حسد کے سبب اکثر ٹھنی رہتی تھی یہاں تک کہ غالب کو پھبتی کسنی ہی پڑ گئی۔ بنے ہے شہہ کا مصاحب پھرے ہے اِتراتا اپنی مدح سننے کی عجیب و غریب حاجت کل کے حکمرانوں کو ہوا کرتی تھی، سو وہی ضرورت آج بھی ہے۔ ظلِ الٰہی کل بھی تھے ظلِ الٰہی آج بھی ہیں۔ بس نئی مصیبت یہ درپیش ہے کہ ایک بادشاہ ہوتا تو تسلیمات و رباعیات کا محور و مرکز بھی ایک ہی رہتا، یہاں تو ہر پارٹی کے اپنے شہنشاہ معظم ہیں جو جلال میں یکتا، جمال میں لاثانی ہیں، جن کی ذات ارفع اور دنیاوی برائیوں سے مبرا ہے۔ نہ ان لیڈران سے کوئی انسانی لغززش ہوسکتی ہے، نہ ہی خطائیں سرزد ہونے کی کوئی گنجائش ہے، اور کرپشن تو انہیں چھو کہ نہیں گزری، بس کمال ہی کمال ہے جو وہ عوام کی خاطر کیا کرتے ہیں۔ یعنی فقری رعایا کے لیے یہ بھی خوشی کی خبر ہے کہ شہنشاہ معظم آج سگنل کی لال بتی دیکھ کہ رک گئے۔ عالی جاہ کے صاحبزادے خود یعنی اپنے قدموں پہ چل کہ قریبی بازار جا نکلے، عوام میں گھل مل گئے۔ دو چار خوش نصیب ایسے بھی تھے جنہیں دیکھ کہ ہاتھ ہلایا۔ بہت سے تو ایسے شہزادے ہیں جن کے وظیفہ خوار یہ ثابت کربھی چکے کہ سیاسی قیادت کا قدرتی کرشمہ صرف اسی بلڈ لائن میں ہے، سیاست اور ملک کی خدمت کرنی ہے قائد ابن قائد، لیڈر ابنِ لیڈر کے بینر تلے ہی کرنی ہوگی، ورنہ نہیں چلے گی۔ غالب و ذوق بیچارے شاہ کی مصاحبی کیا کرتے ہونگے جو وظیفہ خواری اب مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پہ اپنے اپنے پارٹی چیئرمین کی ہورہی ہے، معاف کیجیے گا پارٹی لیڈر نہیں مہاآتما، اوتار، بندہ پرور کہیے۔ پھر ایک اور طرح کی مشکل بھی فی زمانہ درپیش ہے۔ بادشاہی کے زمانے میں تو جو تخت نشین ہوتے تھے سو تمام تعریفیں اسی فرد واحد مردِ حق کے لیے ہوتی تھیں آج مدح سرائی کے لیے ممدوح کا برسرِ اقتدار ہونا ضروری نہیں۔ جیسے رسی جل جاتی ہے پر بل نہیں جاتے ایسے ہی کرسی چھن جاتی ہے پر اکڑ فوں نہیں جاتی۔ خوشامدیوں کی پوری فوج ریکارڈ توڑمبالغہ آرائی میں ذرا کمی نہیں آنے دیتی۔ کتنی آسانی ہوجاتی اگر صرف ایک پارٹی کے پاس عالی جاہ ہوتے، ہم جھک کے کہتے عالی جاہ کا اقبال بلند ہو۔ کیا اللہ کے چنیدہ رہنما کو پہچاننا ایسا مشکل ہوتا اگر یہ دعویٰ صرف ایک ہی لیڈر کے حواریوں نے کیا ہوتا۔ ہم نفسا نفسی کے اس دور میں یوں بھٹکتے نہ پھرتے اگر صرف ایک ہی سیاسی جماعت یہ آفر کردیتی کہ وقت کا مسیحا صرف ان کا پارٹی چیئرمین ہے۔ بڑی کنفیوژن ہے۔ پاکستان میں حکمرانی کے کیک کا ٹکڑا باری باری کھانے والی ساری ہی جماعتیں، ان کے ماننے والے، ان کے پارٹی عہدیدار سب کا لگ بھگ ایک ہی دعویٰ ہے کہ پاکستان کے اگلے پچھلے سب مسائل کا حل صرف ان کے لیڈر کے پاس ہے اور یہ کہ ان کا لیڈر اللہ کی طرف سے پاکستان کو ملنے والا واحد اور آخری چانس ہے۔ لیڈران کی تابڑ توڑ قصیدہ گوئی کا اعجاز ہے کہ اب ذرا کوئی یہ بول کے دکھائے کہ آپ کے لیڈرموصوف اللہ کی شان نہیں ہم سب جیسے گناہ گار انسان ہیں۔ لمبی زبان پہ گندی گالی والے ہزاروں کارکن حملہ آور ہوجائیں گے۔ جسے مدح گانے والوں نے قوم کی آخری امید قرار دیا ہو اس کے تاریک پہلو پوری قوم کے سامنے عیاں ہو بھی جائیں تو اتنا آسانی سے یقین کون کرے اور بھلا کیسے کرے۔ جسے مبالغے کے نابغہ روزگار ماہرین نے وقت کا معجزہ قرار دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ہو اس کی اندھی عقیدت کو لوگوں کے دِلوں سے کھرچنے میں بڑی دقت درکار ہے۔ اک جانب مدح سراوں کی پوری فوج ہے تو دوسری جانب ایک ساتھ ہونے والی لیک آڈیو وڈیو، بڑے انکشافات، منظر عام پہ آتے دستاویزات اور گھر کے بھیدی ہیں۔ پبلک کو زہر کا تریاق ذرا دھیرے دھیرے ملے تو شاید کچھ بات بنے ورنہ عجلت میں تو پیالے چھلک رہے ہیں۔
469