76

زندگی کا اصلی چہرہ

اعزاز احمد چوہدری کے بعد ابنِ عباس دوسرے ایسے پاکستانی سفیر ہیں جن سے تعلق کی ابتدا تو اُن کی وزارِت خارجہ میں ملازمت کے دوران ہوئی لیکن ان سے قائم ہونے والا عزت اور محبت کا رشتہ اُن کی ریٹائرمنٹ کے بعد اور زیادہ مضبوط ہوگیا ہے۔

مشاعروں اور ادبی کانفرنسوں کے سلسلے میں اپنے دیکھے ہوئے 27 میں سے بیشتر ممالک میں کئی کئی بار جانے کا موقع ملا ہے اور یوں تقریباً تیس کے قریب سفیرانِ کرام سے بھی مختلف اوقات میں ملاقات ہوتی رہی ہے جس کا شمار یقینازندگی کے خوشگوار تجربات میں ہوتا ہے بالخصوص براہ راست فارن سروس میں شریک ہونے والوں کا روّیہ ، تاثر اور پیشہ ورانہ خدمات کا معیار اور بھی زیادہ متاثر کُن رہا ہے، اب چونکہ حافظہ ناموں کے حوالے سے شرمندگی کی حدود کوچُھورہا ہے، اس لیے میں افضال صاحب، گل حنیف، عبدالباسط، منظور صاحب، طارق ضمیر، نجم الثاقب، سہیل محمود، اشتیاق اندرابی عمران صاحب، نفیس ذکریااور اکرم ذکی صاحبان تک بھی اپنی یادداشت کو امتحان میں ڈالوں گا۔

اگرچہ مجھے یقین ہے کہ اس کالم کے چھپنے تک مجھے کم از کم دس اور احباب کے نام یاد آجائیں گے، سو اُن سے پیشگی معذرت کے بعد میں یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتاہوں کہ اس ساری تمہید کا مطلب اصل میں یہ بتانا ہے کہ برادرم ابنِ عباس نے چند دن قبل ایک برازیلین شاعر ماریوموریس اینڈوانڈے کی ایک نظم کا انگریزی ترجمہ مجھے واٹس ایپ کیا تو مجھے خیال آیا کہ اگرچہ ماضی قریب میں برازیل، ارجنٹائن اور چلّی سمیت لاطینی امریکا کے بہت سے فکشن نگاروں نے اپنے جھنڈے گاڑے ہیں مگر پابلو نرووا کے علاوہ شاید ہی وہاں کے کسی شاعر نے عالمگیرشہرت پائی ہو ۔

زیرِ نظر نظم کے شاعر کے بارے میں بھی وکی پیڈیا سے صرف اتنا ہی پتہ چل سکا ہے کہ یہ 1893ء میں برازیل میں پیدا ہوا اورا س نے  1945ء میں وفات پائی، اُس کی یہ نظم اتنی سادہ ، سچی ، گہری اور برموقع تھی کہ بے ساختہ میرا جی اِسے اُردو قارئین تک پہنچانے کو چاہا، اگر چہ اس سے پہلے میرے انگریزی سے شعری تراجم کی ایک پوری کتاب ’’کالے لوگوں کی روشن نظمیں‘‘ کے نام سے چھپ چکی ہیں مگرمیں اس شاندار زبان پر اپنی گرفت کے بارے میں کسی بھی طرح کے فخر کے بجائے ایک معذرت کی سی کیفیت میں رہتا ہوں کہ شاید میں اصلی نظم کی جُملہ خوبصورتیوں، گہرائی اور وسعت کو ٹھیک طرح سے ترجمہ نہ کرپائوں البتہ ایک بات کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں کہ میرے نزدیک کسی دوسری اور بالخصوص زبانوں کے ایک الگ خاندان سے تعلق رکھنے والی زبان کی شاعری کا لفظی ترجمہ اکثر اوقات نظم کے حُسن کو غارت نہیں تو بے حد کم ضرور کر دیتا ہے چنانچہ میں ایک قدرے آزاد ترجمے کے حق میں ہوں کہ جس میں ادق اور نامانوس الفاظ استعاروں اور طرزِ ادا کے فرق کو اُس زبان کے مزاج سے بھی قریب رکھنا چاہیے جس میںیہ ترجمہ کیا جارہا ہو، سو اس نظم کو ترجمہ کرتے وقت بھی چار پانچ مقامات پر میں نے یہ رعائت لی ہے اور جان بُوجھ کر لفظی ترجمے پر تخلیقی ترجمے کو فوقیت دی ہے۔

نظم کے موضوع اور مزاج کے بارے میں کسی بھی قسم کی وضاحت چونکہ نظم کے حسن اور آپ جیسے قارئین کے ذوقِ سخن کے لیے نامناسب ہوگی اس لیے میں براہ راست اپنی کاوش کو آپ سے متعارف کراتا ہوں کہ بقول فرازؔآپ اپنا تعارف ہو ا بہارکی ہے۔

شعورِ حیات کا قیمتی مگر مختصر وقت
میں نے اپنی زندگی کے ماہ و سال کا حساب لگایا

تو مجھ پر کُھلا
کہ اب میرے پاس زندہ رہنے کے لیے وقت

اُس وقت سے بہت کم ہے جو میں جی چکا ہوں
یعنی میرے پاس اب ماضی زیادہ اور مستقبل کم ہے

میں نے اپنے آپ کو اُس بچے کی طرح محسوس کیا
جسکو چیری سے بھرا ہوا ایک پیالہ کہیں سے مل جائے

اور وہ لَپ لَپ کرکے جلدی جلدی اُسے کھانا شروع کردے
لیکن جب اُسے یہ احساس ہو کہ اب پیالے میں چیریز کم رہ گئی ہیں

تو وہ کھانے کی رفتار آہستہ کردے اور
ہر چیری کو مزے لے لے کر کھانے لگے

میں نے محسوس کیا کہ میرے پاس سطحیت اور بے معنویت کے لیے اب مزید وقت نہیں ہے میں اُن محفلوں میں شامل ہوکر اپنا وقت ضایع نہیں کر نا چاہتا جہاں لوگ اپنی خود ساختہ انائوں کی تشہیرمیں لگے رہتے ہیں

مجھے حاسد اور کم ظرف لوگوں سے اُلجھن ہونے لگی ہے جو ہنر مند اور لائق لوگوں کی کردار کشی اس لیے کرتے رہتے ہیں تاکہ اُن کی جگہ خود حاصل کرسکیں

اور اُن کے مقام، صلاحیت، کامیابیوں اورخوش بختی کو
اپنی ہَوس اور لالچ کا ذریعہ بنا سکیں

میرے پاس طویل اور لاحاصل بحثوں کے لیے وقت نہیں ہے
کہ میرے نزدیک دوسروں کی زندگیوں کے اُن حصوں پر بحث کرنا

کارِ فضول سے جن سے میرا کوئی تعلق واسطہ نہ ہو
میرے پاس اُن لوگوں کی نفسیات کو سمجھنے کے لیے بھی وقت نہیں ہے

جو عمر کے بڑھنے کے باوجود ذہنی طور پر نابالغ رہتے ہیں
مجھے اُن طابع آزمائوں سے بھی نفرت ہے جو ہر قیمت پر طاقت اور اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں اور جو چیزوں کی

اصل اور بنیادکو سمجھنے کے بجائے اُن کے ظاہر اور تعارف سے فوراً متاثر ہوجاتے ہیں
میرے پاس چیزوں کے ظاہری اور سطحی رخ کو دیکھنے کے لیے وقت نہیں ہے

کہ میں اُن کی اصل اور تہہ سے رابطہ رکھنا چاہتا ہوں
میری رُوح بہت جلدی میں ہے

کیونکہ اب میرے پیالے میں بہت کم چیریز باقی رہ گئی ہیں
میں اب اپنا باقی وقت ’’انسانیت ‘‘ کے قریب رہ کر گزارنا چاہتاہوں

ایسے لوگوں کے درمیان جو انسانیت کے اعلیٰ مدارج پر فائز ہوں
جو اپنی غلطیوں اور حماقتوں پر کُھل کر ہنس سکتے ہوں

اور میں اُن ہر خود غلط لوگوں سے دُور رہنا چاہتا ہوں
جو اپنی کامیابیوں کے نشے میں کم رہتے ہیں

اور اُن حقائق سے دوربھاگتے ہیں
جن کی بنیاد عزتِ نفس کا روشن احساس ہے

چیزوں کا جوہر ہی زندگی اور اُن کو بامعنی ا ور باوقار بناتا ہے
اس لیے میں اشیا کے ظاہر کے بجائے اُن کے جوہر سے ہی رشتہ رکھنا چاہتا ہوں

میں جلدی میں ہوں ، ہاں میں بہت جلدی میں ہوں
اُس جذباتی گہرائی اور شدّت کے ساتھ اپنی بقیہ زندگی گزارنے کے لیے

جو صرف عمر اور تجربے کے ساتھ حاصل ہوتی ہے
میں اپنی بقیہ چیریز میں سے کسی ایک کو بھی ضایع کرنا نہیں چاہتا

مجھے یقین ہے وہ اُن کی نسبت زیادہ پُرلطف اور مزیدار ہوں گی
جو میں نے آج تک بڑی رغبت اور تیزی سے کھائی ہیں

میری منزل یہی ہے کہ اب میں اپنے آخری سانس تک
اطمینان ، امن، اپنے پسندیدہ لوگوں اور زندہ ضمیر کے ساتھ

وفادار رہ کر وقت گزاروں
چینی فلسفی کنفیوشش نے کہا تھا

’’ہم دو زندگیاں گزارتے ہیں
مگر افسوس کہ ہمیں دوسری زندگی کے

آغاز کا پتہ اُس وقت چلتا ہے
جب ہمارے پاس

بسر کرنے کو صرف ایک ہی زندگی باقی رہ جاتی ہے ‘‘

بشکریہ ایکسپرس