175

دست جمہور میں شاہوں کے گریباں ہوں گے

نیرنگیٔ سیاست دوراں پر حیران و پشیماں قارئین کی ضیافت طبع کا مواد ڈھونڈنے بیٹھا تو اپنے وقت کے یکتا صحافی‘ شاعر اور نثر نگار آغا شورش کاشمیری مرحوم کے ایک شعر نے دل و دماغ کو جکڑ لیا ؎ وصیت کر رہاہوں آخری مسعود اختر کو مرے بیٹے! یہ ہے پنجاب اس کو چھوڑ جانا تم پوری نظم مرحوم کے صاحبزادے مسعود اختر عرف مسعود شورش نے فراہم کی مگر اس سے قبل آغا جی کا کچھ اور کلام! کل اذانِ صبح سے پہلے فضائے قُدس میں میں نے دیکھا کچھ شناسا صورتیں ہیں ہم نشیں تھے حکیم شرق سے شیخِ مجددّ ؒ ہم کلام گوش بر آواز سب دانش وران علم و دیں بوالکلام آزاد سے غالب تھے مصروف سخن میر و مومن دور حاضر کی غزل پہ نکتہ چیں اس سے کچھ ہٹ کر گلابی شاخچوں کی چھاؤں میں تھے ولی اللہ کے فرزند نکتہ آفریں ایستادہ سرو کے سائے میں تھے مولائے رومؒ جن کے فرمودات میں مضمر ہیں آیاتِ مبیں سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے حالی درویش خو باندھ کر بیٹھے حلقہ شبلی عہد آفریں میں نے بڑھ کر مرشدِ اقبال سے یہ عرض کی آپ کو ہم تیرہ بختوں کی خبر ہے یا نہیں دل شکستہ ہو کے فرمایا مجھے معلوم ہے بے ید بیضا ہے پیرانِ حرم کی آستیں سلطنت لے کر خدا و مصطفی ؐکے نام پر اب خدا و مصطفی ؐکی راہ پر کوئی نہیں ہے ابھی شہباز کی غیرت پر کرگس خندہ زن ''ہے وہی سرمایہ داری بندہ مومن کا دیں'' اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب ''پادشاہوں کی نہیں اللہ کی ہے یہ زمیں'' کون سمجھائے اندھیری رات کو آئین مہر وائے بد بختی کہ خود مومن ہے محروم یقیں خون دے کر خانۂ صیاد کو روشن کرو جاؤ مشرق کے خراب آباد کو روشن کرو کھیل یارب ترے بندوں سے قضا کھیل رہی ہے اک کھیل بعنوان دغا کھیل رہی ہے جس کھیل کو صرصر نے بھی کھیلا نہ چمن میں اس کھیل کو اب باد صبا کھیل رہی ہے الجھے ہوئے حالات کے تیور ہیں خطرناک بدلے ہوئے موسم کی ہوا کھیل رہی ہے رندانِ تہی دست سزاوارِ سبو ہیں! ٹوٹی ہوئی توبہ سے گھٹا کھیل رہی ہے لغزیدہ قدم‘ اذنِ خرد مانگ رہے ہیں دزیدہ نگاہوں میں حیا کھیل رہی ہے اورنگ شہی ہیچ ہے رندوں کی نظر میں محلوں کی بلندی پہ قضا کھیل رہی ہے احرام سے‘ جُبّے سے‘ مُصلے سے عبا سے‘ شورش ؎ مری بے خوف نوا کھیل رہی ہے معلوم نہیں کیوں؟ ٭٭ شورش کاشمیری یوں گردش ایام ہے معلوم نہیں کیوں رندوں کا لہو عام ہے معلوم نہیں کیوں مفلس ہے تو اک جنس فرومایہ ہے لا ریب مخلص ہے تو ناکام ہے معلوم نہیں کیوں تہمت کے سزا وار فقیہان حرم ہیں مُلاّ یہاں بد نام ہے معلوم نہیں کیوں اب خون کے دھبے ہیں مدیروں کی قبا پر خامہ دم صمصام ہے معلوم نہیں کیوں خون رگ اسلام سے زہراب و سبو تک ابہام ہی ابہام ہے معلوم نہیں کیوں ہر بات پہ تعزیر ہے ہر قول پہ زنجیر! ہر شاخ پہ اک دام ہے معلوم نہیں کیوں جمہور کی یلغار سے ہر قصر شہی میں کہرام ہی کہرام ہے معلوم نہیں کیوں عرض کرتا ہوں نہ خود رونا‘ نہ میرے ہم خیالوں کو رلانا تم عزیزو!وقت آخر آ گیا اب بھول جانا تم کبھی دنیائے دوں کی سحر کاری میں نہ آنا تم کبھی بیٹھے بٹھائے یاد آ جائوں تو ہنس دینا مری ناکامیوں کی داستان پر مسکرانا تم جو کچھ تم نے کیا مجھ بے سروساماں مسافر سے نہ اس پر معذرت کرنا ‘نہ اس پر تلملانا تم بہت سا خون دے کر اٹھ رہا ہوں بزم ہستی سے چراغ شب‘ مرے خون تمنا سے جلانا تم حیات و موت میں کچھ فاصلہ ہرگز نہیں یارو! زمانہ چیز کیا ہے؟دیکھ لینا آزمانا تم حسینانِ جہاں اچھے ہیں لیکن آفت جاں ہیں کوئی سا بتکدہ ہو اپنی گردن مت جھکانا تم سیاست مسخروں کے ہاتھ میں حنظل کا پتہ ہے ’’بوئے گل‘‘ کے ورق پڑھ کر زمانے کو سنانا تم خدایان نوی فرعون بن کر سامنے آئیں تو ان کی گردنوں پر تیشۂ غیرت چلانا تم عوام الناس میں اکثر دنی فطرت ہیولے ہیں مسلمانوں کی خاطر کوئی سختی مت اٹھانا تم وصیت کر رہا ہوں آخری مسعود اختر کو مرے بیٹے!یہ ہے پنجاب اس کو چھوڑ جانا تم ذرا صبر! اک نئے دور کی ترتیب کے ساماں ہوں گے دست جمہور میں شاہوں کے گریباں ہوں گے برق خود اپنی تجلی کی محافظ ہو گی! پھول خود اپنی لطافت کے گریباں ہوں گے نغمہ و شعر کا سیلاب امڈ آئے گا وقت کے سحر سے غنچے بھی غزل خواں ہوں گے نائو منجدھار سے بے خوف و خطر کھیلے گی ناخدا بربط طوفاں پہ رجز خواں ہوں گے راہ رو اپنی مسافت کا صلہ مانگیں گے رہنما اپنی سیاست پہ پشیماں ہوں گے راست گفتار کہ ہیں ناقد اولاد فرنگ وقت کہتا ہے کہ پھر داخل زنداں ہوں گے تو کہاں جائے گی کچھ اپنا ٹھکانہ کر لے ’’ہم تو کل خواب عدم میں شب ہجراں ہوں گے‘‘

 

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز