490

سائنس و ٹیکنالوجی میں خود انحصاری

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ دنیا کے وہ ممالک جو سائنس و ٹیکنالوجی کے اعتبار سے ترقی یافتہ ہیں ،وہ اقتصادی سماجی ترقی میں بھی دیگر دنیا سے کافی آگے ہیں۔عہد حاضر میں ہمارے پاس اس کی بہترین مثال چین کی ہے جس نے ملک میں "سائنسی رویوں" کو پروان چڑھاتے ہوئے سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں وہ کارنامہ ہائے سرانجام دیے کہ دنیا دنگ ہے۔ تازہ ترین "گلوبل انوویشن انڈیکس" کا جائزہ لیا جائے تو چین عالمی درجہ بندی میں بارہویں نمبر پر ہے جبکہ یہ امر قابل زکر ہے کہ چین صف اول میں شامل پندرہ ممالک میں متوسط آمدنی کا حامل واحد ملک ہے ، باقی فہرست میں دنیا کے بلند آمدنی والے ترقی یافتہ ممالک شامل ہیں۔
آج دنیا میں ٹیکنالوجی کی جس بھی جہت کا زکر کیا جائے ، چین آپ کو ممتاز مقام پر نظر آئے گا۔اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ملک کی اعلیٰ قیادت سائنس و ٹیکنالوجی کو آگے بڑھانے میں میں خود ذاتی دلچسپی لے رہی ہے۔ابھی حال ہی میں چینی صدر شی جن پھنگ کا ایک مضمون شائع ہوا جس میں انہوں نے چین کو سائنس اور ٹیکنالوجی میں ایک سرکردہ ملک بنانے اور سائنس ٹیکنالوجی کی خود انحصاری اور اعلیٰ درجوں پر خود کو مضبوط بنانے کے بارے میں مفصل اظہار خیال کیا ہے ۔ مضمون میں عوام کے بہترین مفاد میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے واضح کیا گیا ہے کہ اسے جدید کٹنگ ۔ایج ٹیکنالوجیز کی ترقی، اقتصادی ترقی کو  فروغ دینے، ملک کی اہم ضروریات کو پورا کرنے، اور عوام کی فلاح و بہبود میں احسن طور پر استعمال کیا جائے۔ مضمون میں کہا گیا ہے کہ چین کو اہم شعبوں میں بنیادی ٹیکنالوجیز میں جدت اور کامیابیاں حاصل کرنی چاہئیں، سائنسی اور تکنیکی اختراعات کو فوری نوعیت کے اور اہم ترین مسائل سے نمٹنے کے لیےاستعمال کیا جائے۔اس ضمن میں ملک کی سٹریٹجک سائنسی اور تکنیکی صلاحیت کو بڑھانے اور انوویشن کے لیے ادارہ جاتی تعاون کے تحت قومی لیبارٹریوں، تحقیقی اداروں، کالجوں اور معروف ٹیک فرموں کو اپنی ذمہ داریاں نبھانی چاہئیں۔ مضمون میں کہا گیا ہے کہ ادارہ جاتی اصلاحات کا ایسا بنیادی نظام قائم کرنے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے جو جدت کی حمایت کرتا ہو۔ چین کو عالمی نقطہ نظر کے تحت اپنی سائنسی اور تکنیکی اختراعات کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے اور عالمی سائنسی اور تکنیکی گورننس میں گہرائی سے حصہ لینا چاہیے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ دور حاضر  میں ٹیکنالوجی کے میدان میں خودانحصاری ہر ملک کی خواہش بن چکی ہے اور اس حوالے سے چین نے خود کو دنیا میں انوویشن اور جدت کے ایک مرکز میں ڈھالنے کے لیے دوررس اہمیت کا حامل منصوبہ ترتیب دیا ہے جس کے تحت 2035 تک چین ایک گلوبل انوویشن لیڈر کے طور پر ابھر کر سامنے آ سکے گا۔اس دوران اہم ٹیکنالوجیز کی ترقی کو فروغ دیتے ہوئے پیش قدمی کی جائے گی۔ دنیا کی دوسری بڑی معیشت کے طور پر چین ٹیکنالوجی کے میدان میں سبقت کے لیے آرٹیفشل انٹیلی جنس ،کوانٹم انفارمیشن ، انٹیگریٹڈ سرکٹس ،زندگی اور صحت ، برین سائنسز ، ائیرو اسپیس ، سائنس و ٹیکنالوجی اور ارضیاتی و سمندری کھوج کے حوالے سے کئی اہم اسٹریٹجک منصوبوں کی تکمیل کرے گا۔
اس دوران چین کی جانب سے یہ عزم ظاہر کیا گیا ہے کہ سائنس و ٹیکنالوجی میں خود انحصاری کی جستجو کی جائے گی اور اس سارے عمل میں اعلیٰ معیاری ترقی پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔اس مقصد کے حصول کے لیے چین "قومی انوویشن نظام" میں بہتری لائے گا اور ملک کو ایک سائنسی و تکنیکی پاور ہاؤس میں ڈھالنے کے لیے اپنی کوششوں میں مزید تیزی لائے گا۔چین کا یہ موقف ہے کہ اس وقت دنیا میں اہم نوعیت کی تمام ٹیکنالوجیز کو خریدا نہیں جا سکتا ہے لہذا جدت اورتخلیق میں خودانحصاری ہی دیرپا کامیابی کی ضمانت ہے۔لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ باقی دنیا سے الگ تھلگ رہتے ہوئے ترقی کی کوشش کی جائے گی بلکہ دنیا کے دیگر ممالک میں سائنسی شعبے میں حاصل شدہ اہم کامیابیوں اور پیش رفت سے سیکھنے کا عمل بھی جاری رہے گا۔اس طرح "چینی دانش" کے تحت عالمگیر مسائل پر قابو پانے کے لیے ایک مثبت اور تعمیری کردار ادا کیا جائے گا۔چین کی کوشش ہے کہ نئی ابھرتی ہوئی صنعتوں اور گرین ترقی کو ہم آہنگ کرتے ہوئے آگے بڑھا جائے۔ ایسی صنعتوں میں نیو جنریشن انفارمیشن ٹیکنالوجی ،بائیو ٹیکنالوجی ،نئی توانائی ، نیو میٹریلز ،ہائی اینڈ مصنوعات ، نئی توانائی سے چلنے والی گاڑیاں ،ماحولیاتی تحفظ ،ائیرو اسپیس اور بحری امور سے وابستہ صنعتیں شامل ہیں۔
چین کی ترقیاتی منصوبہ بندی میں اس بات پر توجہ دی گئی ہے کہ انٹرنیٹ ،بگ ڈیٹا اور آرٹیفشل انٹیلی جنس کو دیگر صنعتوں کے ساتھ گہرائی سے مربوط کیا جائے، جدید صنعتکاری کو ترقی دی جائے ،پائیدار ترقیاتی عمل میں نئی ابھرتی ہوئی صنعتوں کو فوقیت دی جائے اور نئی ٹیکنالوجیز ،نئی مصنوعات ، نئے بزنس ماڈلز اور کاروبار کی نئی اقسام کی حوصلہ افزائی کی جائے۔فطرت اور مادی ترقی کے درمیان ہم آہنگی کے لیے ایسے سلسلہ وار اقدامات متعارف کروائے جائیں جن سے مجموعی طور پر ایک" گرین اقتصادی سماجی ترقی" ممکن ہو سکے۔یہ بات اچھی ہے کہ چین نے سائنس ،ٹیکنالوجی اور انوویشن کے شعبہ جات میں دیگر دنیا کے ساتھ بھی کھلے ،اشتراکی اور باہمی سودمند تبادلوں اور تعاون کی ہمیشہ حمایت کی ہے ، جس سے پاکستان جیسے چین کے قریبی دوست ممالک بھی مستفید ہو سکتے ہیں۔

بشکریہ اردو کالمز