171

عید بھی اگئی

عید انے میں بس ایک دو دن باقی ہے۔اور یہ رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ جانے والاہے۔رمضان المبارک میں ہر مسلمان کی زندگی بدل جاتی ہے۔اور اپنے آپ کو بلکل مختلف انداز میں پاتا ہے۔جب رمضان المبارک کا مہینہ قریب اتا ہے تو ہم سوچتے ہیں کہ پھر سے رمضان المبارک کا مہینہ ارہاہے اور پھر سے روزے رکھنے پڑے گے۔اب جب رمضان المبارک کی اخری دو دن باقی ہے اور انشاء اللہ پھر عید انی والی ہے،تو بچوں سمیت بڑوں کی خوشیاں بھی دوبالا ہوجاتی ہے۔بچے تو ویسے بھی بچے ہوتے ہیں وہ تو نئے کپڑوں اور نئے جوتوں اور نئے چیزوں کی وجہ سے خوشی محسوس کرتے ہیں۔اور بڑے یہ خوشی کچھ اور طریقے سے محسوس کرتے ہیں۔یعنی بڑے یہ سوچتے ہیں کہ شکر ہے کہ رمضان المبارک کا مہینہ خیریت سے گزر گیا۔یہ اچھی بات ہےکہ کوئی رمضان المبارک کے پورے روزے رکھے اور پھر اس پر عید ائے ضرور خوش ہونگے۔عید اصل میں روزے دار کیلئے خوشیوں کا دن ہے۔اور اللہ تعالیٰ نے یہ اپنے بندوں کو ایک انعام کے طور پر عطاء کی ہے۔کیونکہ پورا مہینہ مسلمان دن کے وقت کچھ کھاتا پیتا نہیں ہے اور اپنے آپ کو ہر گناہ کے کام سے بچاتا ہے۔اور زکر اذکار میں اپنے آپ کو مشغول رکھتا ہے۔عید مسلمانوں کی سب سے بڑی خوشی کا دن ہے۔تمام عالم میں جس نے بھی روزے رکھے ہوتے ہیں وہ روزے مکمل ہونے کے بعد عید مناتے ہیں۔عید کے پہلے دن جب چاشت کی نماز ادا ہوتی ہے تو اس کے بعد مسلمان ایک دوسرے کو گلے لگاتے ہیں۔ایک دوسرے کو عید کی مبارکباد دیتے ہیں۔ہر کوئی اپنے رشتہ داروں کے گھر جاتے ہیں اور ان سے عید ملتے ہیں۔اور سب سے اچھی عید بچوں کی ہوتی ہے۔بڑے اپنے بچوں کو پیسے دیتے ہیں۔بچوں کا عید تو یہی ہوتا ہے کہ وہ زیادہ پیسوں کے مطالبے کرتے ہیں۔عید کے خوشیوں میں اپنے محلے اور گاؤں کے ان غریبوں کو بھی شامل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔جو نئے کپڑوں کی طاقت نہیں رکھتے۔عید میں امیروں پر سر سایہ فرض ہوتا ہے اور وہ اس لئے تاکہ غریب بھی امیروں کے ساتھ اپنی عید مناسکے۔اور عید کے خوشیوں میں شامل ہوجائے۔عید میں یتیموں اور مسکینوں کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے۔کیونکہ وہ بھی اللہ کے بندے ہیں۔انہوں نے بھی رمضان المبارک کے روزے رکھے ہوتے ہیں۔ان کا بھی حق ہے کہ وہ بھی ہمارے ساتھ عید مناسکے۔ہمارے معاشرے کے عام طور پر روایات تو یہ ہے کہ زیادہ تر لوگ ایک دوسرے سے خفہ ہوتے ہیں۔جب عید کا موقع اتا ہے تو وہ ایک دوسرے کو گلے لگاتے ہیں۔اور پچھلے گلے شکوے دور کردیتے ہیں۔یہی توعید کی خوبصورتی ہوتی ہے۔کہ سالوں کے پریشان لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرتے ہیں۔یہ چھوٹی عید کی خوشیاں تھی۔سال میں دو عید اتے ہیں ۔دوسرا عید قربانی والا عید ہوتا ہے جس میں مسلمان ہر سال جانور ذبح کرتے ہیں اور سنت ابراہیم کو زندہ کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ یہ عید ہم سب کیلئے بلکہ تمام عالم اسلام کیلئے امن کا گہوارہ بنادے۔امین۔

بشکریہ اردو کالمز