53

ان کی سوچ

یہ آپ سب کا حق ہے کہ آپ جس سیاسی پارٹی کو چاہیں سپورٹ کریں۔ آپ جس کو چاہیں ووٹ دیں۔ میں ایک ویڈیو میں دیکھ رہا تا چند پاکستانی غیر ممالک میں اپنے پاکستانی پاسپورٹ کو آگ لگارہے تھے۔ وہ یہ نعرے بلند کررہے تھے نو عمران Remittance No مطلب یہ کہ اگر عمران نہیں ہوگا تو ہم زرمبادلہ نہیں بھیجیں گے۔ میں صرف ان سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ پاکستان کا سبز پاسپورٹ جلاکر اپنے وطن کی بے توقیری تو نہیں کررہے۔ کیا وہ اس وطن کو جس نے انہیں پہچان دی‘ عزت دی‘ اس قابل بنایا‘ وہ وطن جہاں ان کے بزرگ مدفون ہیں۔ جن کی گلی کوچوں سے آپ کے بچپن کی یادیں وابستہ ہیں۔ ایسی یادیں جو آپ سب کو لبھاتی ہیں۔ جہاں آپ کیلئے محبتیں بکھری ہوئی ہیں۔ میں اپنے ایسے تمام ہم وطنوں کو کہنا چاہتا ہوں کہ آپ ذرا اس وطن میں آئیں‘ اس وطن میں یہاں کے نظام کو دیکھیں‘ یہاں کے مجبور اور بے کس لوگوں کی زندگیوں کا جائزہ لیں۔ یہاں پر صحت اور تعلیم کے نظام پر نظر ڈالیں۔ یہاں پر جائزہ لیں کہ مافیاز کس طرح آپریٹ کرتی ہیں۔ آپ زندگی کے جس شعبے کا جائزہ لیں گے آپ کو محرومیوں‘ تنگدستیوں‘ غربت‘ بھوک‘ افلاس کا راج ملے گا۔ یہاں کی فضا بھی گرد آلود ہے۔ آپ لوگ ایک صاف ستھری خوشگوار فضا اور ماحول میں سانس لے رہے ہیں۔ آپ نے تنگدستیوں کے زخم نہیں کھائے۔ خدا کرے آپ مسکراتے رہیں۔ لیکن ایک آسودہ زندگی کے دوش پر آپ جب غیر ممالک کی سڑکوں پر پاکستان کے پاسپورٹ جلاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ وطن عزیز کے حالات سے بے خبر اس قسم کے نعرے لگاتے نظر آتے ہیں۔ تو یقین جانیں دل ڈوب جاتا ہے۔ ذہن میں آندھیاں چلنے لگتی ہیں۔ آپ اپنے لیڈر کو ضرور سپورٹ کریں۔ آپ ان کے حق میں جو چاہیں نعرے لگائیں۔ لیکن یہ تو ملاحظہ کریں کہ آپ کس قیمت پر یہ باتیں کررہے ہیں۔ آپ جو زرمبادلہ بھیجتے ہیں۔ وہ ان کی آسودگی انکی ضروریات کیلئے بھیجتے ہیں۔ جو لوگ اپنی فیملیز کو باہر بلالیتے ہیں انہیں پھر یہاں زرمبادلہ بھیجنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ہاں پھر یہاں انویسٹمنٹ کرتے ہیں۔ میں 2002ئ￿ میں نائن الیون کے بعد کی صورتحال بتاتا ہوں۔ امریکہ اور یورپ کے ممالک سے پاکستان میں 94 ارب ڈالرز کا زرمبادلہ آیا تھا۔ کبھی آپ نے سوچا تھا کہ ایسا کیوں ہوا تھا۔ نائن الیون کے بعد ہم غریب ممالک میں رہنے والے پاکستانیوں کے ذہنوں میں یہ خدشہ اور اندیشہ پیدا ہوا کہ کسی دن جارج بش اور یورپی ممالک کی حکومتوں کے ذہن میں یہ خیال آگیا تو وہ غیر ممالک کے بینکوں میں موجود پاکستانی لوگوں کے بینک اکاؤنٹ منجمد نہ کردیں۔ اس لئے آپ سب نے اپنا زرمبادلہ یہاں بھیجا‘ کیونکہ آپ سمجھتے تھے یہ آپ کا وطن ہے۔ یہاں آپ کی رقم محفوظ ہے۔ اس زرمبادلہ کا 70 فیصد حصہ پاکستان میں رئیل اسٹیٹ میں لگا اور ایک سروے کے مطابق ڈیفنس کراچی کے 500 گز کے پلاٹ کی جو قیمت 15 سے 20 لاکھ تھی وہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک کروڑ کا ہندسہ عبور کرگئی۔ ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں بننے والی ہر حکومت نے غیر ممالک میں مقیم پاکستانیوں کے مفادات کا ہمیشہ خیال رکھا۔ ان کیلئے مختلف ادوار میں مختلف سود مند اسکیمیں متعارف کرائی گئیں تاکہ ان کی ہر طرح سے حوصلہ افزائی کی جائے۔ بس کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے جذبات کا اظہار ضرور کریں‘ لیکن اس بات کا ضرور خیال رکھا جائے کہ وطن عزیز سے آپ کے رشتے‘ تعلق اور وابستگی کے حوالے سے کوئی منفی تاثر نہ ابھرے۔ اس وقت شہباز شریف کو جن چیلنجوں کا سامنا ہے، ان میں سب سے پہلے ملک کی دگرگوں معاشی صورتحال‘ عمران خان کے تابڑ توڑ فقید المثال عوامی جلسے‘ ان کے بیانیے کی مقبولیت‘ پھیلتی ہوئی جذباتی کیفیت‘ آنے والا بجٹ‘ عوام کیلئے فلاح و بہبود اور مہنگائی کے حوالے سے اقدامات‘ پھر تمام اتحادیوں کے ماتھے پر شکنیں نہ پڑنے دینا۔ بظاہر تو نظر آرہا ہے کہ شہباز شریف اپنے تئیں تمام محاذوں پر بڑی چابکدستی اور ڈپلومیسی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس وقت پاکستان کی معیشت ہچکولے کھارہی ہے۔ اس کے علاوہ ڈس انفارمیشن مہم جوئی‘ لوگوں کے مابین تقسیم جو یقینی طور پر ملک کی یکجہتی کیلئے کوئی اچھا شگون نہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے واضح طور پر کہا ہے کہ درحقیقت فوج اپنی قوم سے حرارت لیتی ہے۔ قوم کا اتحاد ہی اس کی طاقت ہوتی ہے۔ پھر کوئی کیسے قوم کی یکجہتی اور اتحاد کو تقسیم کرنے کی اجازت دے سکتا ہے۔ جنرل باجوہ صورتحال پر خاصے فکر مند دکھائی دیئے۔ سچی بات بھی ہے کہ جس طرح ایک ایسے پروپیگنڈہ کو جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ ہو اس کو پھیلانا شروع کردیا جائے۔ میں بار بار سابق وزیراعظم سے گزارش کررہا ہوں کہ آپ کوئی ایسا واضح پیغام ضرور دیں جس سے اس پروپیگنڈے کا تدارک ہوسکے۔ جس میں نہ تو کوئی حقیقت ہے اور معاملہ ذاتیات سے آگے کا ہے اورمیں حکومت سے بھی کہتا ہوں کہ وہ بھی معاملات کو ذاتیات تک نہ لے جائے۔کسی کو دیوار سے نہ لگائیں۔ یہی غلطی عمران خان نے بھی کی تھی۔ یہ کونسی سیاست ہے جس میں آپ ملاقات اور بات چیت کے دروازے بند کردیں۔ ہم سب کو اس بات کا ادراک ضرور ہونا چاہئے کہ ہم اپنی کھینچا تانی اور مفادات کے چکر میں اندھا دھند کچھ ایسا کرتے چلے جائیں جس کا نقصان ہمارے اتحاد اور وحدت کو ہو۔ اس طرح کے رویوں سے ہم اپنا ناقابل تلافی نقصان کر بیٹھیں گے۔ ایوب خان کے دور میں شیخ مجیب الرحمن اگرتلہ سازش کیس جیل کی سلاخوں کے پیچھے تھے۔ جب گول میز کانفرنس کا انعقاد ہوا تو نوابزادہ نصر اللہ خان نے ایوب خان پر زور دیا کہ اگر آپ گول میز کانفرنس کو سود مند بنانا چاہتے ہیں‘ کوئی نتیجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو شیخ مجیب کو ہر صورت شریک کیا جائے۔ شیخ کو پیرول پر رہا کیا گیا۔ انہوں نے اپنا چھ نکاتی فارمولا پیش کیا‘ (جاری ہے)

 

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز