62

لاہور: جلسۂ پاکستان کے امکانی نتائج

اقتدار سے متنازعہ علیحدگی کے بعد، تحریک انصاف کے جلسوں کی سیریز میں مینار پاکستان کا جلسہ لاہور سے زیادہ ’’جلسۂ پاکستان‘‘ ثابت ہوا۔ اگرچہ اس سے قبل کراچی اور پشاور کے عظیم جلسے بھی جلسہ پلس ثابت ہوئے لیکن لاہوری جلسے کا قومی تشخص بہت واضح ہوا۔ ان جلسوں کو پاکستان میں تحصیل تا اضلاع اور بیرون ملک کتنے ہی صدر مقامات اور بڑے شہروں سے تحریک انصاف کے کارکنوں کے علاوہ بڑی تعداد میں پُرجوش آن لائن سامعین ازخود ملے۔ عمران خان کے حامیوں کے اس اختراعی اہتمام نے خان صاحب کی تمام تر مایوسی اور شدت سے محسوس ہوتی تنہائی کو آناً فاناً بلند درجے کے حوصلے میں تبدیل کر دیا۔ وہ نئے عزائم سے فوراً عملی میدان میں اتر آئے۔ آغاز تو ان لیڈر لیس ملک گیر احتجاجی مظاہروں اور سوشل میڈیا پر ریکارڈ رسپانس سے ہوا جو خود کو تنہا محسوس کرنے و الے خان اعظم کی بطور وزیر اعظم آخری قومی نشریے پر کی گئی نحیف سی اپیل کا ردِعمل تھا، محتاط اندازہ ہے کہ تحریک انصاف کا متعارف کرایا ای پبلک کونٹیکٹ اور اس میں ملک بھر اور بیرون ممالک سے پاکستانیوں کی بڑی تعداد میں آن لائن شرکت کا ماڈل اب تحریک ِانصاف تک محدود نہیں رہے گا، اسے انتخابی مہم میں سب ہی سیاسی جماعتیں اختیار کر لیں گی، یوں وسیع تر عوامی رابطہ مہم میں جدید ترین کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کے موثر ترین استعمال کو متعارف کرانے کا سہرا تحریک انصاف کے سر ہو گا جس سے اس کی شہرت اور قومی حیثیت میں اضافہ ہوگا لیکن جلسہ پلس وہی سیاسی اجتماعات مانے جائیں گے جن میں آن لائن اور مرکزی مقام کے شرکا صرف کارکن ہی نہیں وہ عام لوگ زیادہ ہوں گے جو اثر، دبائو اور لالچ سے نہیں بلکہ بالرضا و پُرجوش جوق در جوق شامل ہوں گے جیسا کہ تحریک انصاف کے تینوں متذکرہ خصوصاً جلسۂ پاکستان میں ہوا۔

واضح رہے مینار پاکستان کے جلسے کو ناکام کرنے کے لیے اسٹیٹس کو کے بدرنگ اور ’’ڈھنگ‘‘ سے بنی حکومتی مشنری کا روایتی اور بھونڈا استعمال برقرار رہا۔ مینار پاکستان کو جانے والی مصروف شاہرائوں پر عصر سے پہلے کنٹینرز کی رکاوٹیں کھڑی کر دی گئیں۔ لاہور اور دوسرے شہروں میں کیبل سروس بند کرنے کے روایتی حربے استعمال کیے گئے، سو جلسے کے اختتام تک مینار پاکستان کو جانے والی شاہرائوں پر جلسہ گاہ کی جانب جانے والے شہریوں کی کاروں اور موٹر سائیکلوں کی طویل جیم پیک قطاریں دیکھیں گئیں جبکہ مینار پاکستان سے ملحقہ علاقے بشمول فلائی اوور شرکا سے اٹا پڑا تھا لیکن انتظامیہ کو شاید معلوم ہی نہ ہوا کہ سوشل میڈیا پر سب کچھ آتا رہا۔

خاکسار تحریک انصاف کے مینار پاکستان پر جلسے کو یوں جلسۂ پاکستان قرار دے رہا ہے کہ اس میں ہوئی عمران خان کی تقریر اور آئندہ پیش کیا گیا لائحہ عمل درجن بھر سے زیادہ سیاسی جماعتوں کی مشترکہ سیاست و حکومت اور خود تحریک انصاف کی سیاست کو متاثر کرتا ہوا ان میں کئی تبدیلیوں کا سبب ہو گا، اس کے فوری اور دور رس نتائج یوں بھی نکلنا واضح ہیں کہ اس میں سابق متنازعہ وزیراعظم کا یہ خطاب ملک کے جس سیاسی ماحول اور بددستور جاری آئینی بحران میں ہوا ہے، سب سے بڑھ کر انہیں یکدم عوام الناس کے بڑے حساس طبقات کی طرف سے جو پذیرائی نتیجہ خیز معلوم دیتی تائید و حمایت ملی اور مل رہی ہے وہ پوری قومی سیاست، حکومت، ریاستی اداروں اور سب سے بڑھ کر عوامی رویوں کو کافی زیادہ اور ان کے حق میں ہی متاثر کرنا واضح ہے ان کی تقریر نے تحریک عدم اعتماد سے قبل کی تحریک انصاف اور اس کی اور ملکی قیادت کی شہرت اوراعتبار کے گرتے گراف کو صرف روک نہیں دیا بلکہ شہر میں جلسے گاہ کی طرف جاتے جوق در جوق شرکا کے تیور اور اس سب کے پس منظر میں سوشل میڈیا کے بے قابو ریکارڈڈ ٹرینڈ سب وہ واضح اشارے ہیں کہ اقتدار کھونے کے فوراً بعد ہی عمران خان نے حیرت انگیز سیاسی کمائی ایک ہفتے میں ہی کر ڈالی۔ ان کا فوری انتخابات کا مطالبہ بطور آئینی بحران کے حل کے پہلے سے ہی بیشتر تجزیہ نگاروں اور غیر جانبدار رائے سازوں میں تسلیم شدہ ہے۔ خان صاحب جلسوں کے ذریعے اپنے کارکنوں اور روایتی ووٹروں کے علاوہ قوم کے ایک بڑے حصے کو قومی خودی پر بیدار کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں جس پر ان کے بڑے بڑے ناقد بھی بڑی تعداد میں اس ایجنڈے پر ان کے ہمنوا بنے ہیں جسے انہوں نے اسلامی تاریخ کے حوالوں اور اقبال و رومی کے فلاسفی سے واضح کیا جبکہ جلسۂ پاکستان کی تقریر میں انہوں نے کہا کہ اب تحریک انصاف تحریک پاکستان کے ایجنڈے قیامِ پاکستان میں کامیابی کے بعد نظامِ بد کی 74سالہ رکاوٹ کے بعد مقامی اجارہ داریوں سے عوام کی حقیقی آزادی کے لیے قومی خودی کو یقینی بنانے کی تحریک بن گئی ہے۔ بالکل واضح ہے کہ وہ اپنے اس ایجنڈے پر عوام کو چارج کرنے اور انہیں یقین دلانے میں بڑے درجے پر کامیاب ہو گئے ہیں کہ ’’انہیں بیرونی سازش کے ذریعے مخالف متحدہ اپوزیشن نے اقتدار سے الگ کیا‘‘، اس پر وہ ریاستی اداروں کو طریقے، سلیقے اور ذمے داری سے ہدف تنقید بھی بناتے رہے اور موجودہ حکومت کی کرپشن کے مقدمات کے حوالے سے کمزور ترین اپوزیشن کو کھل کر مکمل بےنقاب کرتے رہے۔ خان نے میدان میں سرگرم رہنے کے عزم کا اظہار کیا اور کامیابی کے لیے 27رمضان المبارک کو گھروں سے گلیوں میں نکل کر اجتماعی دعائوں کی اپیل بھی کی۔ عمران کی تقریر میں ’’قومی خودی‘‘ والے پہلو کے اثر کا اندازہ بلوچ سیاسی رہنما اور سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری کی قومی مزاج کی تقریر سے ہوا۔ عمران خان نے قومی سیاست و حکومت میں چند خاندانوں کے بڑھتے اجارے سے ملکی معیشت کو پہنچنے والے بڑے خسارے کے حوالے سے قوم کو کامیابی سے آگاہ کیا اور واضح کیا کہ کرپشن کی قبولیت ذمے داراداروں کی نیم قبولیت کی صورت سرایت کر گئی ہے غرضیکہ مینار پاکستان کا جلسہ بھرپور قومی مزاج اور نکلتے امکانی نتائج کا حامل ہو کر جلسۂ پاکستان بن گیا۔ ایسے ہی مسلم لیگ کی قرارداد لاہور 80سال قبل منظور ہوتے ہی قرارد داد پاکستان بن گئی تھی۔ اللہ کرے قومی خودی کا ایجنڈہ فقط تحریک انصاف کا نہ رہے، سب پارٹیوں کا مشترکہ سیاسی ہدف بن جائے، امید تو یہی ہے۔

بشکریہ جنگ نیوزکالم