412

امریکی سازش… امریکی گواہی

امریکہ میں بہت کم ایسے سیاست دان ہیں جو اسرائیل کے ناجائز قیام، صہیونیت (Zionism) کے عزائم، امریکی خارجہ پالیسی پر اسرائیلی لابی کا قبضہ اور فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرتے ہوں۔ جس کسی نے بھی امریکہ میں ایسا کرنے کی کبھی ہمت کی، اسے نشانِ عبرت بنا دیا گیا۔ امریکی سیاست میں ایک حقیقت، قول ِ فیصل کی طرح بیان کی جاتی ہے کہ "No one can become US President without Jew media and Jew Money" ’’کوئی شخص بھی یہودی سرمائے اور یہودی میڈیا کے بغیر امریکی صدر نہیں بن سکتا‘‘۔ میڈیا ہر ایسے شخص کی کردار کشی کرتا ہے جو اسرائیل اور صہیونیت کا مخالف ہو اور امریکی اسٹیبلشمنٹ اسے عبرتناک انجام تک پہنچاتی ہے جس میں سے اکثر کی بدترین موت بھی واقع ہو چکی ہے۔ اس خوف کے باوجود بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو امریکی معاشرے میں مسلسل اپنے ضمیر کے مطابق حق کی آواز بلند کرتے رہتے ہیں۔ ایسے عظیم امریکیوں کے بارے میں ایک بات بہت اہم ہے کہ یہ بہت ہی وسیع المطالعہ ہوتے ہیں اور ان کی امریکی سی آئی اے، امریکی خارجہ پالیسی اور امریکی حکومت کی عالمی ریشہ دوانیوں اور بدمعاشیوں پر گہری نظر ہوتی ہے۔ اسی لئے جب وہ امریکی پالیسیوں، امریکی عزائم اور امریکی سازشوں کا ذکر کرتے ہیں تو ان کے پاس پسِ پردہ ایسے بیشمار شواہد موجود ہوتے ہیں جن سے ان کی بات سچ لگتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی سو امریکی سکالروں کے مقابلے میں بھی ان کی بات زیادہ غور سے سنی جاتی ہے اور اسے دبانے کے لئے صیہونی اسرائیلی امریکی لابی اپنا بھر پور زور لگاتی ہے۔ ایسی ہی ایک خاتون سنتھیا میکنی (Cynthia McKinney) ہے۔ اس خاتون نے سفارت کاری کے سب سے معتبر تعلیمی ادارے فلیچر سکول آف ڈپلومیسی سے قانون اور سفارت کاری میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور پھر اینٹی اوچ (Antioch) یونیورسٹی سے قیادت اور تبدیلی (Leadership an Change) کے حوالے سے مقالہ لکھنے پر ڈاکٹریٹ کا اعزاز حاصل کیا۔ سیاست میں آنے سے پہلے اس نے اپنے مزاج کے عین مطابق ایک چھوٹے سے سکول میں پرائمری کے بچوں سے لے کر یونیورسٹی کی سطح کے طالب علموں کو پڑھایا۔ یہ ایک سیاہ فام خاتون ہے جس کا خاندان اٹلانٹا جارجیا میں آباد اُن خاندانوں میں سے ہے جن کے آباء و اجداد کو افریقہ سے غلام بنا کر لایا گیا تھا۔ وہ اپنے خاوند کے ساتھ جمیکا میں آرام سے زندگی گزار رہی تھی اور درس و تدریس سے ہی منسلک تھی کہ اس کے والد نے 1986ء میں اس کے کاغذاتِ نامزدگی جارجیا کے ایوانِ نمائندگان (House of Representatives) کے الیکشنوں کے لئے داخل کروا دیئے اور اسے واپس امریکہ بلوا لیا۔ سیاست میں اچانک آمد کے باوجود وہ 40 فیصد ووٹ لے کر الیکشن جیت گئی۔ دو سال بعد جب دوبارہ الیکشن ہوئے تو وہ اور اس کا باپ دونوں ایک ساتھ ایوان ِ نمائندگان کے رکن منتخب ہوئے۔ وہ جارجیا اسمبلی کی رکن تھی کہ امریکہ نے 1991ء میں پہلی دفعہ عراق پر حملہ کر دیا۔ دنیا کو پہلی دفعہ بذریعہ سی این این اس عالمی جنگ کی براہِ راست تباہ کاریاں دکھائی گئیں۔ یہ دُنیا کو امریکی طاقت دکھانے کا شرمناک مظاہرہ تھا۔ امریکہ کے تمام سیاست دانوں کو بخوبی اندازہ تھا کہ امریکہ یہ جنگ دراصل اسرائیل کے دشمنوں کو نیست و نابود کرنے کے لئے لڑ رہا ہے، اس لئے کوئی اس کے خلاف بولتا نہ تھا۔ لیکن سنتھیا نے جرأت دکھائی اور اس امریکی جارحیت کے خلاف جب ایوان میں بولنا شروع کیا تو اس کے امریکہ کے خلاف جارحانہ ریمارکس پر باقی تمام اراکین ایوان سے واک آئوٹ کر گئے۔ وہ پہلی دفعہ 1992ء میں امریکی کانگریس کی رکن منتخب ہو گئی۔ اس کی آواز دبانے کے لئے اعلیٰ عدالتوں کو استعمال کیا گیا۔ سپریم کورٹ نے تکنیکی فیصلہ کرتے ہوئے اپنے فیصلے "Miller vs Johnson" میں لکھا کہ سنتھیا جس حلقے یعنی گیارہویں (11th)ڈسٹرکٹ سے منتخب ہوئی ہے اس کی حد بندی اس طرح کی گئی ہے کہ وہاں سیاہ فام افراد کی اکثریت ہو گئی، یہی وجہ ہے کہ یہ وہاں سے جیت گئی۔ سنتھیا نے تبصرے کرتے ہوئے کہا کہ اسے اس فیصلے سے تعصب کی بُو آتی ہے۔ حلقہ بندی دوبارہ کی گئی مگر وہ پھر بھی جیت کر کانگریس کی رکن بن گئی۔ گیارہ ستمبر 2001ء کو جب ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ ہوا تو اس کے بعد کسی کی ہمت نہیں تھی کہ جارج بش انتظامیہ کے خلاف گفتگو کرے۔ مگر سنتھیا نے کہا یہ حملہ دراصل امریکہ کی مشرقِ وسطیٰ میں جارحانہ پالیسیوں کا ردّعمل ہے۔ اس بیان کے بعد دونوں سیاسی پارٹیوں میں موجود یہودی لابی کے افراد اسکے خلاف متحرک ہو گئے۔ اس نے اپنی ڈیمو کریٹک پارٹی میں آگے بڑھنے کے لئے نائب صدر یا صدر کا امیدوار بننا چاہا تو 2002ء کے پرائمری پارٹی الیکشن میں ہی اسے شکست ہو گئی۔ کہا جاتا ہے کہ لاتعداد ریپبلکن پارٹی کے ممبران نے بھی ڈیمو کریٹک پارٹی کے کنونشن میں شرکت کر کے سنتھیا کے خلاف ووٹ دیئے۔ اس کے باوجود وہ کانگریس کا بار بار رکن منتخب ہوتی رہی۔ اسے بخوبی اندازہ ہو گیا تھا کہ دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں میں یہودی سرمایہ چلتا ہے اور یہودی میڈیا ہی ان کی مدد کرتا ہے، اس لئے وہ ان پارٹیوں میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اس نے امریکہ میں چھوٹی سیاسی پارٹیوں کے ایک اتحاد ’’گرین پارٹی‘‘ میں شمولیت اختیار کر لی اور اس اتحاد نے اسے 2008ء میں امریکہ کے صدارتی الیکشن میں اپنا امیدوار بنایا جس میں باراک اوباما جیت گیا۔ یہ امریکہ کی واحد سینیٹر ہے جو 2008ء سے اب تک مسلسل اسرائیل کے خلاف نہ صرف مظاہروں میں شرکت کرتی رہی ہے بلکہ یہ خود بھی مظاہروں اور جلسوں کا اہتمام کرتی چلی آ رہی ہے۔ اس نے لاتعداد امریکی اور یورپی سیاست دانوں اور صحافیوں کو غزہ کا دورہ بھی کروایا ہے۔ وہ برطانوی پارلیمنٹیرین جارج گیلوے (George Galloway) کو لے کر 15 جولائی 2009ء کو غزہ جا پہنچی اور اسرائیل اور صیہونیت کے خلاف اپنے احتجاج کا اظہار کیا۔ جانے سے پہلے اس نے واشنگٹن میں ’’اسرائیل کی مسلمانوں کی نسل کشی‘‘ کے نام پر ایک بہت بڑی ریلی بھی نکالی۔ امریکی سیاست کی اس عظیم خاتون اور صیہونیت کے خلاف جاندار آواز نے عمران خان کی حکومت کو تبدیل کرنے سے متعلق اپنے ٹویٹ میں گواہی دی ہے کہ یہ امریکی سی آئی اے کی سازش ہے۔ اس نے لکھا ہے "The US had a big hand in overthrow of Imran Khan of Pakistan." ’’امریکہ کا پاکستان کے عمران خان کی حکومت ختم کرنے میں بہت بڑا ہاتھ ہے‘‘۔ اس کی وجوہات بیان کرتے ہوئے اس نے لکھا ہے کہ عمران خان نے روس کی مذمت کرنے سے انکار کیا، پابندیوں کی مخالفت کی اور ساتھ ہی سی آئی اے کو پاکستان میں اڈے دینے سے انکار کیا۔ وہ ’’فلسطینیوں کے حقوق کا ہمیشہ ترجمان رہا ہے‘‘۔ امریکہ سے یہ گواہی صرف ایک سنتھیا کی نہیں ہے بلکہ ہر وہ شخص جو امریکی سی آئی اے کو جانتا ہے اور امریکی معاشرے میں تھوڑی سی آواز رکھتا ہے وہ یہ گواہی دے رہا ہے کہ عمران خان کی حکومت کو امریکہ نے گرایا ہے۔ برطانوی سیاست دان جارج گیلوے جیسا شخص اس معاملے میں اس قدر غصے سے بولا ہے کہ اس نے شہباز شریف کے خلاف تمام سفارتی آداب بھی بالائے طاق رکھ دیئے۔ وہ لوگ جو امریکہ کو جانتے ہیں وہ سب کہہ رہے ہیں کہ یہ سب امریکہ نے کیا ہے اور وہ جو امریکہ کی مانتے ہیں وہ مؤدبانہ طور پر کہہ رہے ہیں یہ تو صرف ہمارا مقامی معاملہ ہے۔ غیرت و حمیت والوں اور مؤدب غلاموں میں اتنا ہی فرق ہوتا ہے۔

 

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز