152

فوج اور عوام

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ کسی کو فوج اور عوام میں خلیج نہیں ڈالنے دیں گے۔ ہم اپنی طاقت عوام سے لیتے ہیں، غلط معلومات اور پروپیگنڈے سے ریاست کی سالمیت اور یک جہتی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں، دشمن قوتیں طویل عرصے سے انتشار پیدا کرنے کے لیے سرگرم ہیں جنھیں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ قیاس آرائیوں اور افواہوں کے موثر مقابلے کے لیے بروقت اور متحد رد عمل کی ضرورت ہے، کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

سابق فوجی افسران سے لاہور میں ہونے والی ملاقات میں آرمی چیف نے ان خیالات کا اظہار کیا، جبکہ اس سے قبل آئی ایس پی آر کی پریس بریفنگ میں پاک فوج کے ترجمان واضح کرچکے ہیں کہ فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹیں، فوج کون ہوتی ہے کسی کو این آر او دینے والی، فوج میں کوئی تقسیم نہیں، پوری فوج اسی طرف دیکھتی ہے جہاں آرمی چیف دیکھتے ہیں، سیاسی افواہوں میں سچائی نہیں، پچھلے دنوں جو ہوا وہ سیاسی عمل کا حصہ تھا۔ ملکی بقا صرف جمہوریت میں ہے، پاک فوج کی قیادت کے حوالے سے ایک منظم گھناؤنا پروپیگنڈا مہم چلائی جا رہی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں پاک فوج کے علاوہ کوئی بھی ادارہ متحد اور منظم نہیں نہ وہاں کوئی تقسیم ہے۔ پاک فوج کی آئین کے مطابق جو ذمہ داریاں ہیں فوج وہیں تک محدود ہے اور اس سے قبل بھی کہا جا چکا ہے کہ فوج ریاست کے ساتھ ہے جسے سیاستدان سیاست سے دور رکھیں اسی میں ملک و قوم کا مفاد ہے۔ الیکشن کا فیصلہ سیاستدانوں نے کرنا ہے۔

پی ٹی آئی کی حکومت سے قبل ملک میں جتنی بھی حکومتیں رہیں ان میں کسی نے نہیں کہا کہ پاک فوج اور حکومت ایک صفحے پر ہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت میں یہ مسلسل رٹ لگائے رکھی گئی اور تین سال تک بار بار یہ کہہ کر فوج کو متنازع بنانے کی ایسے کوشش کی گئی جیسے فوج عمران خان کی حکومت کے ساتھ ایک صفحے پر ہے۔ یہ تاثر دیگر سیاسی جماعتوں کو دیا گیا جبکہ فوج حکومت نہیں ریاست کے ساتھ رہی ہے اور فوج یہ بھی کہہ چکی ہے کہ وہ آئین و قانون کے مطابق ہر حکومت کی ماتحت رہی ہے اور صرف اپنے قانونی دائرے تک محدود ہے اور فوج کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

تحریک عدم اعتماد کی کامیابی سے قبل وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے فوج کے غیر جانبدارانہ کردار پر بھی سوالات اٹھائے گئے اور غیر جانبدار رہنے والوں کو جانور قرار دیا گیا مگر پاک فوج کی طرف سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

سابق حکومت نے سلامتی کمیٹی کے اعلامیے سے متعلق فوجی ترجمان نے کسی سازش کے ذکر سے اتفاق نہیں کیا ۔ آرمی چیف کا یہ کہنا درست ہے کہ فوج اور عوام میں خلیج پیدا کرنے کے لیے غلط پروپیگنڈا ہو رہا ہے جو واقعی ملکی سالمیت اور یکجہتی کے خلاف ہے۔

یہ سو فیصد حقیقت ہے کہ ماضی میں سیاستدانوں نے ہی فوج کو سیاست میں ملوث کرنا چاہا اور پی ٹی آئی حکومت نے ہمیشہ یہ تاثر دیا کہ فوج حکومت کے ساتھ ہے۔ شیخ رشید جیسے وزیر گمراہ کن بیانات دیتے تھے۔

فوجی ترجمان کا یہ کہنا درست ہے کہ فوج روزانہ میڈیا ٹاک شوز میں اپنا موقف نہیں دیا کرتی اس کا اپنا اصول اور طریقہ کار ہے۔ سابق حکومت کی طرف سے فوج کو اپنی سیاست میں ملوث دکھانے کے لیے بے سروپا بیانات دیے گئے جن کی حمایت بعض سابق فوجی افسران نے کی اور بعض نام نہاد دفاعی تجزیہ کار سیاست میں ملوث ہو کر حکومت کے اقدامات کو درست اور اپوزیشن پر تنقید کرتے رہے جو ان کا کام نہیں تھا۔

دفاعی تجزیہ کار کہلانے والے بعض ریٹائرڈ فوجی افسروں کو سیاسی میڈیا ٹاک شوز میں اپوزیشن کی مخالفت اور حکومت کی حمایت کے بجائے حقیقت اور عملیت پسندانہ موقف دینا تھا، اگر ایسا نہ کرنا تو پھر کھل کر سیاست کرنا چاہیے تھی۔ عوام اپنی فوج کو غیر متنازع دیکھنا چاہتے ہیں مگر بعض سیاستدانوں اور دفاعی تجزیہ کاروں نے ایسا نہیں ہونے دیا۔

پاک فوج کی مکمل وضاحت اور آرمی چیف کے موقف کے بعد سوشل میڈیا پر فوج کو زیر بحث نہیں لانا چاہیے تاکہ فوج اور عوام میں کوئی خلیج حائل نہ ہو ۔ عوام کی اکثریت پہلے ہی فوج کے کردار کی تعریف کرتی ہے اور اسے غیرجانبدار قرار دے چکی ہے۔

بشکریہ ایکسپرس