275

’’ میرا کراچی کمیشن 2020 ء ‘‘

کیا ستم ظریفی ہے کہ کے ڈی اے اور اب سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کے افسران نے شہر قائد میں جن خلاف ضابطہ سر بہ فلک عمارتوں اور شادی گھروں کی کسی کے سیاسی دبائو میں آ کر یا مبینہ طور پر بھاری بھاری رقمیں اینٹھ کر تعمیر کی اجازت دی تھی آج سپریم کورٹ کے حکم پر انہیں گرانے کے لئے بادل نخواستہ میدان میں اترے ہوئے ہیں۔ ’’منی پاکستان‘‘کراچی میں ان بے ضابطہ عمارتوں کی تعداد تین عشرے پہلے انگلیوں پر گنی جا سکتی تھی ، اب ان عمارتوں کا شمار ہزاروں میں ہے، یہ کراچی کی ترقی نام پر دھبہ ہے جو مٹائے نہ مٹے گا۔ کراچی کے شفاف بدن پر بیلچہ اسی دن چل گیا تھا جس روز اس شہر میں جماعت اسلامی، جمعیت علماء پاکستان اور پیپلز پارٹی کو سیاسی طورپرمفلوج کر کے شہر میں ایم کیو ایم کی راجدھانی قائم کی گئی تھی۔ ایم کیو ایم ملک کے اٹھانوے فیصد کچلے ہوئے طبقے کے حقوق کی بازیابی کا نعرہ لے کر منظر عام پر آئی تھی اور اس کی قوت سندھ کی شہری آبادیوں کے وہ جواں سال لڑکے تھے جو نظام کی خرابیوں کے سبب با ضابطہ نہ تو تعلیم حاصل کر سکے اور نہ ہی انہیں کوئی ایسا روزگار میسر تھا جو انہیں کسی ایسی جماعت سے اپنا ناطہ جوڑنے سے روک سکتا جو مستقبل میں حقوق پانے کے لئے پر امن جدوجہد سے کنارہ کشی اختیار کر کے بزور قوت اپنے لوگوں کے حقوق حاصل کرنے کے لئے باغیانہ راستہ اختیار کر سکتی تھی۔اسی طرح اس ملک کے سب سے بڑے شہر اور معاشی حب میں پڑھے لکھے اور کچھ کر گزرنے کے جنون میں مبتلا جوانوں کی اکثریت بھی ایم کیو ایم کے ساتھ کھڑی ہو گئی جو خوش آئند بات تھی لیکن جلد ہی اس جماعت کی قیادت اپنے قانونی اورآئینی سفر اور جمہوری منزل سے بھٹک کر ایک پریشر گروپ کے طور پر ابھر کر سامنے آئی۔ پھر یہ کبھی جرنیلوں کے اشاروں پر اور کبھی سندھی پنجابی وڈیروں کی ترغیبات پر کھل کر ناچنے لگی اور اس کے نظریات کی چھاپ ہلکی پڑتی گئی، اس نازک موڑ پر اس جماعت کا سیاسی فلسفہ پس پشت چلا گیا تو اس کے نظریاتی کارکنوں کی بجائے وہ کارکن اس کی صفوں میں آ گھسے جو مختلف مافیائوں کے ایجنڈہ بردار اور تنخواہ دار تھے۔ ایم کیو ایم کا نظریاتی کارکن رویوں کے اعتبار سے سیاسی کارکن کی تمام صلاحیتوں سے آسودہ اور قومی دھارے میں رہ کر حقوق مانگنے کا روادار تھا اور اس جدوجہد کے لئے اسمبلیوں اور منتخب اداروں کے دروازوں پر دستک دینے کا حامی تھا لیکن جو ایم کیو ایم کولوٹ کھسوٹ میں یکتا مافیائوں کے تابع لانے کے لئے مسلح عنصر اس جماعت میں آیا تو جلد ہی ان مسلح غیر نظریاتی کارکنوں نے قیادت سے لے کر نچلی سطح کے بند و بست تک معاملات پر اپنی گرفت مضبوط کر لی اور یہی وہ ٹرننگ پوائنٹ تھا کہ ایم کیو ایم شہری آبادی تو درکنار اپنے لئے بھی اجنبی ہوکر رہ گئی۔ یہی وہ بد نصیب لمحہ تھا کہ جب ایم کیو ایم ان مفاد پرست لوگوں کے زیراثر آکر سیاسی اور جمہوری طرز سیاست سے ہٹ کر مفادات اور سمجھوتے بازی کی سیاست میں پڑ گئی۔ اس سمجھوتے بازی میں پارٹی کا سیاسی ایجنڈہ پیچھے رہ گیا اور مفاد پرست کارکنوں اور رہنمائوں نے 98 فیصد عوام کی نجات کی دعویدار قیادت کی ناک کے نیچے بیٹھ کر ایسے ایسے گل کھلائے کہ چشم فلک بھی یہ کارستانیاں دیکھ کر شرمندہ ہو گئی۔ پھر تو بلدیاتی اور شہری اداروں میں ضابطوں کی دھجیاں بکھیر کر ایک مہذب شہر میں جنگل کی داغ بیل ڈال دی گئی۔ اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لئے پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور جماعت اسلامی بھی ایم کیوایم سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئیں۔ شہری آبادیوں میں غیر قانونی کمرشل عمارتوں کی بھیڑ، برساتی نالوں پر قبضے اور وہاں آبادکاریاں، پارکوں پر غاصبانہ قبضے اور وہاں شہدا کے خاندانوں کے نام پر تعمیرات، گرین بیلٹوں پر بے ضبط اور بے ضابطہ عمارتوں کی تعمیر، سرکلر ریلوے لائنیں اکھاڑ کر وہاں اور ارد گرد بستیاں بسانے جیسے کار خیر کے کاموں میں ایم کیو ایم ، پیپلزپارٹی ،قوم پرست جماعتوں اور دوسری جماعتوں حصہ بقدر جثہ کے مصداق نے دل کھول کر اس قبضہ گیری میں حصہ لیا۔ ماضی میں کراچی، حیدر آباد، میر پور خاص اور نواب شاہ کی نمائندہ جماعت ایم کیو ایم اردوبولنے والے بھائیوں کی نمائندہ جماعت تھی اور اس کا ایک نظریاتی چہرہ تھا جو ان سے چھین لیا گیا۔ ان دنوں ایم کیوایم اپنی نظریاتی ساکھ کھونے کی سزا کے عمل سے گزر رہی ہے۔کیا زمانہ تھا کہ جب اس کے ایک اشارہ ابرو پر وفاقی اور صوبائی حکومتیں بچھ بچھ جایا کرتی تھیں، آج تحریک انصاف جیسی لے پالک جماعت اسے جھوٹے سچے وعدوں کی ٹھمری پر تگنی کا ناچ نچا رہی ہے اور وہ ناچنے پر مجبور ہیں۔ایم کیو ایم کی بھرے میلے میں واپسی مشکل کام تو ہے ناممکن نہیں، بس اسے دامن پر لگے سارے داغ دھو کر ایک بار پھر عام آدمی کی سیاست کرنا ہو گی اور وہ سیاسی سمجھوتے بازی، چائنا کٹنگ، چوک اور فٹ پاتھ ہوٹلوں کو بیچنے،نالوں اور پارکوں کو رہائش گاہوں میں بدلنے کی روش ترک کرنے اور دھندے کہلانے والے سارے مندے کام چھوڑ کراچی اور اس کے عوام کو کراچی والوںکوسچے دل سے گلے لگا کر تجدید عہد وفا کر لے ،تو کراچی انہیںمایوس نہیں کرے گا۔جس طرح 2013 ء کا کراچی آپریشن بہتر نتائج نکلنے کے باوجود ادھورا چھوڑ کر اس کی شفافیت یقینی نہ بنائی جا سکی اسی طرح مجھے خدشہ ہے کہ عدالت عظمی کا کراچی آپریشن بھی سیاسی جماعتوں میں موجود کالی بھیڑوں اور کرپٹ افسر شاہی کی پسند نا پسند کی بھینٹ چڑھ سکتا ہے۔ اس آپریشن میں غریبوں کی چھتر چھایا نہیں گرنی چاہئیے، اور اگر کوئی غریب زد میں آتا ہے تو اسے متبادل چھت ملنی چاہئیے۔ عدالت عظمی کراچی کو بے قاعدگیوں سے نکالنے کے لئے واٹر کمیشن کی طرز پرسپریم کورٹ کے حاضر سروس جج کی سربراہی میں ایک غیر معمولی ’’ میرا کراچی کمیشن 2020 ء ‘‘ تشکیل دے کر پہلے تو اس شہر میں ایک مخصوص مدت سے اب تک کی بے قاعدگیوں کی اسکیننگ کرائے ۔کراچی کے معاملات سے جڑی جماعتوں کو ساتھ بٹھانا ضروری ہے ورنہ اس آپریشن کی کامیابی کے 100فیصد نتائج نہیں مل سکیں گے۔ گو کہ پاکستان میں کمیشنوں کی تاریخ بہت تلخ ہے لیکن ہو سکتا ہے اس شہر کی بحالی کے لئے بننے والایہ کثرالجہتی کمیشن تاریخ ساز نتائج دینے میں کامیاب رہے اور ہم سرخرو ہوں۔

 

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز