207

ہم خودکشی کیوں کرتے ہیں!

 

 

انسانی جسم میں ناجانے دل کیوں ایک اضافی چیز لگتا ہے۔ جہاں ایک طرف دماغ بھی کسی بھی انسان کے لیے بہت اہم ہے، جس سے زندگی گزارنے سے متعلق معیاری سوچ جنم لیتی ہے اور انسان درست اور غلط میں فرق کرتا ہے۔ دوسری جانب دل جذبات سے معمور، انسان کو کبھی خوشی اور کبھی خوش فہمی میں مبتلا رکھتا ہے، کبھی کسی کا دلدادہ اور کبھی کسی کا سامنا کرنے کے نام سے بھی بھڑک اٹھتا ہے۔ مگر میرا نقطہ کچھ اور ہے۔ دماغ کے معاملات میں اگر انسان کوتاہی کرے تو سزا اسے رب سے ملے گی، مثلا اس نے درست رستے کا انتخاب کیوں نا کیا! حق پر عمل کیوں نا کیا! برائی کے ساتھ کیوں چلا وغیرہ وغیرہ۔ لیکن دل کے معاملات میں کوتاہی یا ناکامی کی صورت میں دل خود ہی خود کو معاف کرنے پہ راضی نہیں ہوتا اور اپنے ہونے پہ ہی معترض ہو جاتا ہے اور بقیہ زندگی کو حقارت سے بھر پور بنا دیتا ہے۔

یہی دل کے معاملات جب وقت سے پہلے ہماری نوجوان نسل کو سہنے پڑتے ہیں اور نا سمجھی کی حالت میں، وہ اپنے جنون میں نا جانے کن حدوں تک بڑھ جاتے ہیں اور جب انھیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑے، تو پھر یہی نوجوان ڈپریشن یا انگزائٹی anxiety کا شکار ہو جاتے ہیں اور بعض کیسز میں خود کو ہی ختم کر دیتے ہیں۔

گزشتہ دنوں اسلام آباد کے ایک بڑے نجی ادارے کے ایک طالب علم نے خودکشی کی اور ساتھ ایک خط بھی لکھا، جسے پڑھتے ہوئے مجھے یہی احساس ہوا کہ شاید یہ بھی وقت سے پہلے ان راہوں پہ چل پڑا تھا، جہاں اسے نہیں ہونا چاہیے اور جب آپ وقت سے پہلے کسی منزل تک پہنچنے کی بے انتہا جستجو کرتے ہیں تو اکثر ناکامی آپ کا مقدر بنتی ہے مگر بہت کم لوگ اس حقیقت کو تسلیم کرنے یا اسے ماننے پہ تیار ہوتے ہیں۔

یہاں ایک طرف جہاں جنریشن گیپ generation gap اس امر کی ایک بڑی وجہ ہے کہ وہ والدین جن کی جوانی موبائل فون، انٹرنیٹ یا دیگر سہولیات جو آج با آسانی دستیاب ہیں کے بغیر گزری، انکے لیے اپنے بچوں سے بات کرنا، انکو سننا یا انکو کسی راہ کی تعلیم دینا ایک بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ اولاد سوشل میڈیا پر 30 سیکنڈ کی ریلز یا سٹیٹس دیکھ کے تو خوش ہے مگر والدین کی بات سننا اسے گوارا نہیں۔

دوسری جانب ہمارے تعلیمی ادارے جو اس بابت بہت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں مگر اب محض کاروبار ہیں۔ ان اداروں کے لیے کوئی بھی نوجوان ایک طالب علم کم اور پروڈکٹ زیادہ ہے۔ جس سے پہلا کام مالی نفع حاصل کرنا، دوسرا: بچوں کی اخلاقیات پر بلکل توجہ نا دینا اور تیسرا، اگر کوئی بچہ ذہین نکل آئے تو اسے اداروں کی تشہیر کے لیے استعمال کرنا اور زیادہ نمبرز والدین کو دکھا کر یہ باور کروانا کہ ہمارے اداروں کا تعلیمی نظام بہت اچھا ہے۔

اس پورے عمل میں نا ہی ادارے اور نا ہی والدین، اس طرف توجہ لاتے ہیں کہ ہمارے بچے کی تربیت بھی ضروری ہے، اس زندگی سے متعلق بھی کچھ سیکھنا ہے اور جو کہ بہت ضروری ہے۔ صرف پڑھائی، کتابوں، گریڈز کی دوڑ میں بھاگنے اور ایک ڈگری جس پہ اچھے نمبرز ہی لکھے ہوں، حاصل کر لینا کامیابی نہیں ہے، جب تک آپ کی زندگی مقصد سے خالی ہے اور آپ اپنے دوست کے نمبرز زیادہ آ جانے پہ خوش نہیں ہو سکتے۔

بشکریہ اردو کالمز