سویڈن کی ایک انتہا پسند تنظیم کی جانب سے قرآن کریم کی بے حرمتی کی گئی اور تنظیم کے سربراہ ملعون راسمس پیلوڈن نے مزید درجنوں نسخے نذر آتش کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ اس اعلان کے خلاف سویڈن کے غیور مسلمان اٹھ کھڑے ہوئے اور شدید احتجاج کیا، جو تاحال جاری ہے اور ایک شہر سے نکل کر کئی شہروں تک پھیل گیا ہے ۔ یہ ایسا احتجا ج ہے جسے دیکھتے ہوئے سویڈن کی پولیس بھی پریشان ہے کہ اس سے قبل ایسا احتجاج ہم نے نہیں دیکھا۔ سویڈن پولیس کے سربراہ اندڈش ڈنبیری نے اس کے بارے میں کہا ہے کہ ہم نے پہلے بھی پرتشدد فسادات دیکھے ہیں لیکن یہ تو کچھ او رہی ہے، اتوار کے روز ہونے والی جھڑپوں سے پہلے ہم نے ایسے فسادات نہیں دیکھے تھے۔ دراصل انہوں نے ابھی اسلام کے دیوانوں کو دیکھا ہی کہاں تھا؟ پہلے تو انہوں نے اپنے چھوٹے موٹے مفادات کے لیے احتجاج دیکھے ہوں گے لیکن اب اسلام اور قرآن کی حرمت کی بات ہے تو ظاہر ہے یہ کچھ اور ہی ہو گا۔ لیکن افسوس کہ انہوں نے اصل حقائق جاننے کی بجائے ان احتجاج کرنے والوں کو جرائم پیشہ گروہوں کے ساتھی قرار دیا۔ اس احتجاج میں اب تک چالیس مسلمان گرفتار ہو چکے ہیں ۔
ایک خبر کے مطابق سویڈن کی وزیراعظم نے اسے آزادی اظہار رائے قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سویڈن میںلوگوں کو اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے چاہے وہ اچھی ہو یا بری۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کیا سوچتے ہیں ، مگر آپ کو تشدد کا سہارا نہیں لینا چاہیے یہ ہر گز قابل قبول نہیں ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں صرف انتہا پسند تنظیمیں ہی نہیں حکومت بھی اس قسم کے گھناؤنے جرائم میں ملوث ہے اور انتہا پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ یہ اس معاشرے کی حالت ہے جو خود کو مہذب ، روشن خیال اور سیکولر کہتا ہے حالانکہ یہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دلوںمیں انتہائی بغض رکھتے ہیں۔ وہاں کے حکمران اسلام اور شعائر اسلام کی توہین کرنے والوں کی ہمیشہ پشت پناہی کرتے ہیں جس سے ان کی خوب حوصلہ افزائی ہوتی ہے ۔ ان کے ناپاک قلم اور زبانیں اسلام اور اسلامی شعائر کے خلاف زہراگتی رہتی ہیں۔ جسے وہ آزادی اظہار رائے کا نام دیتے ہیں حالانکہ ان کے نزدیک بھی آزادی اظہاررائے لامحدود نہیں ہے بلکہ اس پر کئی قسم کی پابندیاں عائد ہیں۔ جیسا کہ عیسائی مذہب کے خلاف وہاں کوئی بھی نازیبا حرکت نہیں کر سکتا، اسی طرح کئی ممالک نے ہولوکاسٹ کے خلاف کہنے اور لکھنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے اسی طرح اگر ان ممالک کی سالمیت کے خلاف کوئی بات کی جائے تو وہ بھی ان کے ہاں ناقابل برداشت ہے وہاں اسے آزادیٔ اظہار رائے نہیں قرار دیا جاتا یہ صرف اس وقت ہی انہیں یاد آتی ہے جب ان کی زبانیں اسلام کے خلاف گندگی پھیلاتی ہیں۔ صرف اظہار رائے کی آزادی اسلام کے خلاف زہر اگلنے پر ہی لا محدود ہے ۔ وہ اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ اس سے دو ارب مسلمانوں کی دل آزاری ہوتی ہے ، مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔
ایک طرف تو یہ ملعونین ہیں جو اسلام کے خلاف بکواسات کرتے رہتے ہیں اور ان کے حکمران ان کی پشت پناہی کرتے ہیں لیکن دوسری طرف امت مسلمہ کے حکمران بھی ہیں جو ایسے واقعات پر ٹس سے مس نہیں ہوتے انہیں اس بات کی کچھ پرواہ نہیں ہے کہ قرآن کریم یا نبی کریمۖ کی شان میں گستاخی کی جا رہی ہے ۔ وہ اپنی عیاشیوں میں مست ہیں، اگر ذرا سی تکلیف کر بھی لیں تو ایک انتہائی رسمی سا مذمتی بیان جاری کر دیتے ہیں یا اس ملک کے سفیر کو بلا کر ایک خفیف سا احتجاج ریکارڈ کرا دیتے ہیں، جس سے ان ممالک کو ذرا برابر فرق نہیں پڑتا۔ اس کا طریقہ یہ ہونا چاہیے کہ جیسے ہی کسی ملک سے اس قسم کی خبر ملے فوری طور پر اس سے شدید احتجا ج کیا جائے اور سفیر کے ذریعے ایک ٹھوس پیغام اس ملک تک پہنچایا جائے کہ اس قسم کے واقعات کو بند کریں اور حالیہ واقعہ کی مذمت کریں اگر وہ ایسا نہیں کرتے اور وہاں کی حکومت بھی ان میں ملوث پائی جاتی ہے تو فوراً سفیر کو ملک بدر کر کے اس ملک سے تمام تر تعلقات منقطع کر دیے جائیں۔ پھر ایسا نہ ہو کہ ایسے موقع پر ہمیں اپنی معیشت نظر آنے لگے کہ ہم بھوکے مر جائیں گے کھپ جائیں گے وغیرہ ۔ ہم نے پچہتر برس سے ان کے ساتھ تعلقات رکھ کر کون سی ایسی قابل ذکر ترقی کر لی ہے جو اب ہمیں مزید ترقی کی امید ہے ۔ اگر ترقی کی بھی ہو تو وہ قرآن اور پیغمبر اسلام ۖ کی حرمت سے بڑھ کر نہیں ہے ، ایسی ترقی کا کیا کرنا جو رسول اللہ ۖ اور قرآن کی حرمت کا سودا کر کے ہو۔
لہٰذا تمام مسلم حکمرانوں اور بالخصوص حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ سویڈن کی حکومت پر زور دیں کہ وہ ان واقعات کو سختی سے روکے اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو اس سے فوری طور پر تمام تر تعلقات منقطع کر دیے جائیں ۔ بہتر ہوتا کہ پوری امت مسلمہ یک زبان ہو کر ایسا کرنے والوں کے خلاف احتجاج کرتی اور تمام اسلامی ممالک یک لخت اس ملک سے تعلقات منقطع کر دیتے جس سے اس حکومت پر کافی دباؤ آجاتا اور وہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات کرتی۔ بہر حال جب تک اجتماعی احتجاج کی کوئی صورت نہیں بنتی تب تک فرداً فرداً ہی تمام ممالک کو سویڈن پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ حالیہ قرآن کریم کی بے حرمتی کے واقعات کو روکے اگر ایسا نہیں کرتی تو اس سے مکمل طور پر بائیکاٹ کیا جائے۔
153