168

ایک ایسا بھی دور تھا

عمران خان ملک کے 22 ویں وزیر اعظم تھے جو حسب سابق اپنی مدت پوری نہ کرسکے اور انھیں آئینی طور پر پارلیمنٹ نے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے فارغ کردیا مگر ملک کے سابق وزرائے اعظم ماضی کے ادوار میں آمروں کے اقتدار میں آنے کے باعث، مداخلت پر مستعفی ہوئے یا عدالتی فیصلوں کے باعث اقتدار سے محروم ہوئے تھے اور کوئی بھی پارلیمنٹ میں ووٹنگ کے ذریعے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے برطرف نہیں ہوا تھا۔

عمران خان کو یاد رکھا جائے گا کہ وہ ایوان میں اکثریت کھونے کے کئی روز تک اقتدار میں موجود رہے اور انھوں نے اپنے تمام اتحادیوں کا اعتماد کھونے کے بعد بھی مستعفی ہونا گوارا نہیں کیا اور انھیں اسی قومی اسمبلی نے فارغ کیا جس کے ذریعے انھیں اتحادیوں کے ذریعے منتخب کرایا گیا تھا۔

عمران خان آخر تک عہدے پر موجود رہے انھوں نے اپنے اسپیکروں کو غیر پارلیمانی کاموں پر مجبور کیا جس کے نتیجے میں اسپیکر قومی اسمبلی نے اپنے قائد سے وفاداری نبھاتے ہوئے سپریم کورٹ کے حکم پر ووٹنگ نہیں کرائی اور اپنا عہدہ چھوڑ دینا گوارا کرلیا۔

وزیر اعظم بننے کے بعد انھوں نے پنجاب جیسے بڑے اور اہم صوبے میں ایک ایسا شخص وزیر اعلیٰ بنایا تھا جس کی کوئی سیاسی اہمیت نہ تھی اور پارٹی میں اختلاف کے باوجود انھوں نے ایک غیر معروف و ناتجربہ کار شخص کو اتنا بڑا عہدہ دیا اور مطالبات کے باوجود تبدیل نہیں کیا بلکہ اپنی اس تقرری پر بضد رہے اور اسے وسیم اکرم پلس قرار دے کر اس کی نہ نظر آنے والی کارکردگی کو بھی سراہتے رہے مگر جب انھیں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اپنا اقتدار خطرے میں نظر آیا تو انھوں نے اپنے پسندیدہ وزیر اعلیٰ پنجاب کو ہٹانے میں دیر نہیں کی اور پھر اس شخص کو وزیر اعلیٰ پنجاب نامزد کردیا جو پی ٹی آئی کا نہیں تھا بلکہ وہ شخص تھا جس کو عمران خان نے ماضی میں تنقید کا نشانہ بنایا تھا مگر (ق) لیگ کے پانچ ارکان قومی اسمبلی کی حمایت برقرار رکھنے اور اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے کے لیے وزیر اعظم عمران خان نے اپنے خود ساختہ اصولوں پر سمجھوتہ کیا مگر ان کی وجہ سے (ق) لیگ میں بھی اختلاف پید کرا دیا اور (ق) لیگ کے دو ووٹ اپنے خلاف استعمال کرا لیے۔

اصول پرستی اور ایمانداری کے دعویدار عمران خان نے اپنا اقتدار بچانے کے لیے اتنا بڑا یوٹرن لیا کہ سب حیران رہ گئے کہ انھیں اپنی پارٹی کے پونے دو سو ارکان میں ایک شخص کے سوا دوسرا رہنما اس لیے نہیں ملا کہ اس شخص کے پاس پنجاب میں دس ووٹ تھے۔ پنجاب میں عمران خان نے اپنے پسندیدہ وزیر اعلیٰ کے باعث اپنی پارٹی میں گروپنگ گوارا کرلی تھی مگر پونے چار سال انھیں تبدیل نہیں کیا مگر اپنا اقتدار بچانے کے لیے انھیں وہ کچھ کرنا پڑا جس کا تصور بھی کسی نے نہیں کیا تھا۔

ملک میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ عمران خان اکثریت کھو کر بھی مستعفی نہیں ہوئے اور تحریک عدم اعتماد میں گنتی سے بچنے کے لیے انھوں نے قومی اسمبلی کے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر سے غیر پارلیمانی کارروائی چلوائی اور سپریم کورٹ کی ہدایت کے باوجود وقت مقررہ پر ووٹنگ نہیں ہونے دی۔

قومی اسمبلی میں یہ نیا ریکارڈ بھی بنا کہ نو اپریل کی صبح طلب کیا گیا اجلاس سب سے طویل ترین اس لیے ہو گیا کہ ووٹنگ کے بجائے بار بار اجلاس ملتوی کرایا جاتا رہا۔ رات پونے بارہ بجے اسپیکر مستعفی ہونے پر مجبور ہوگئے اور تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ دس اپریل شروع ہونے کے بعد ہوئی اور قومی اسمبلی کا اجلاس تقریباً 17 گھنٹے جاری رہا۔

پاکستان کی تاریخ میں لکھا جائے گا کہ ایک ایسا وزیر اعظم بھی آیا تھا جس نے تحریک عدم اعتماد سے بچنے کے لیے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل روکنے کی آخر تک کوشش کی جس پر اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر توہین عدالت کے مرتکب ہونے کے قریب تھے مگر حکمران کو ان کی پرواہ ہی نہیں تھی مگر جب رات گئے عدالتیں کھلیں تو وہ وزیر اعظم ہاؤس چھوڑنے پر مجبور ہوا۔ تحریک انصاف کے اقتدار تک لائے جانے اور پھر اقتدار سے نکالے جانے کے حقائق بعد میں سامنے ضرور آئیں گے اور تاریخ میں لکھا جائے گا کہ ایک ایسا حکمران لایا گیا تھا جس نے اپنا اقتدار بچانے کے لیے وہ کچھ کر دکھایا جو کبھی ماضی میں نہیں ہوا تھا۔

بشکریہ ایکسپرس