68

قوم کو تقسیم کرنے کے کھیل کے مضمرات

کسی بھی ریاست، قوم یا معاشرے کی حقیقی طاقت سیاسی ، سماجی ، مذہبی رواداری کا کلچر ہوتا ہے۔ داخلی کمزوریاں مخالف ملک کی طاقت بنتی ہے۔ ریاستی نظام میں تمام فریقین کے درمیان سیاسی، سماجی، مذہبی بنیادوں پر سوچ اور فکر کے درمیان فرق کوئی انہونی بات نہیں ہوتی ۔ یہ عمل ہی معاشرے کا حسن ہوتا ہے کہ اس میں مختلف خیال کے لوگ ایک دوسرے کے بارے میں مختلف سوچ اور فکر کے باوجود اکھٹے رہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔

پچھلے کچھ عرصے سے پاکستان کی ریاست کو ایک بڑا چیلنج سوشل میڈیا پر قوم کو تقسیم کرنے یا اداروں کے خلاف منفی مہم کی صورت میں درپیش ہے ۔ حالیہ سیاسی تبدیلی کے بعد تو سوشل میڈیا پر اداروں کے خلاف شرانگیز بلکہ خطرناک مہم ابھری ہے۔ اس مہم کے پیچھے جہاں سیاسی، فرقہ وارانہ، نسلی اور لسانی گروپوں سے وابستہ مقامی افراد یا گروہ ہیں۔

جہاں تک پاکستان مخالف ممالک کا تعلق ہے تو وہ تو ایسی مہم پر خوش بھی ہوں اور اپنا کام بھی کریں گے لہٰذا داخلی سطح پر جو گروہ یہ کام کررہے ہیں، ان کی بیخ کنی ضروری ہے ۔ کیونکہ اس طرز کی مہم کی بنیاد محض ردعمل تک محدود نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک خاص منصوبہ بندی کی بنیاد پر ترتیب دی جاتی ہے جس کا بڑا مقصد قوم میں انتشاراور غیر یقینی کی صورتحال کو پیدا کرکے ریاستی نظام کو کمزور کرنا ہوتا ہے ۔ اس طرز کی مہم کو ہم ففتھ جنریشن وار یا ہائبرڈ وار کا نام دیتے ہیں ۔

پاکستانی ریاستی نظام کو داخلی سطح پر جو ایک بڑا چیلنج درکار ہے اس میں سیاسی او رمذہبی بنیادوں پر فرقہ وارانہ، لسانی ، علاقائی تقسیم کی بنیاد پر انتہا پسندی یا شدت پسندی شامل ہے۔ اس مہم میں جہاں نفرت انگیز سوچ اور فکر کو غلبہ ہے وہیں بالخصوص ریاستی اداروں کو بنیاد بنا کر ان کو نظام میں متنازعہ بنانے کا کھیل بھی اہم ترجیح ہوتی ہے۔

بالخصوص فوج اور عوام میں خلیج پیدا کرنا یا ان میں تقسیم کی سوچ اور فکر کو نمایاں کرنا کچھ مخصوص داخلی و خارجی عناصر کا اہم ایجنڈا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باوجوہ کی زیرصدارت 79ویں فارمیشن کمانڈرز کانفرنس میں روایتی اور غیر روایتی خطرات کا جائزہ اور ان سے نمٹنے کی مختلف حکمت عملیوں پر غور کیا گیا۔

یہ اجلاس ایک غیر معمولی اجلاس تھا جس میں حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر ریاستی اداروں کے خلاف چلائی جانے والی مہم پر خاصی تشویش کا اظہار کیا گیا ۔فوجی قیادت کے بقول اس طرز کی مہم کا مقصد سوسائٹی اور ادارے کے درمیان خلیج پیدا کرنا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ ریاستی ادارے سوشل میڈیا پر پاکستان میں انارکی پھیلانے کے اس کھیل کو ختم کرنے کے لیے ایک جامع پالیسی کے نظام کو ترتیب دے رہے ہیں ۔

فوجی قیادت کی جانب سے اداروں سمیت پاکستان مخالف مہم پر ایسے افراد یا اداروں کو سخت پیغام دیا گیا ہے کہ ان کے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی نرمی نہیں برتی جائے گی یا سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرز کی منفی مہم میں موجود افراد یا گروہ سے کیسے نمٹا جائے ؟ عمومی طور پر یہ ہی دلیل دی جاتی ہے کہ ایسے لوگوں کو طاقت کی بنیاد پر کچلنا اور ریاستی رٹ کو قائم کرنا ہوتا ہے ۔

انتہا پسندی ، شدت پسندی یا اداروں کے خلاف جاری منفی کھیل کا یہ ایجنڈا محض انتظامی نوعیت پر مبنی نہیں او رنہ ہی اسے محض انتظامی یا قانونی بنیادیا طاقت کی بنیاد سے نمٹا جاسکتا ہے ۔ اس مسئلہ ایک حل انتظامی یا قانونی نوعیت کا ہوتا ہے لیکن دوسرا اہم اور سنجیدہ مسئلہ قومی سطح پر نئی نسل کی عقلی ، علمی و فکری بنیادوں پر ذہن سازی سے جڑا ہوا ہے۔ ہمیں نئی نسل کی فکری بنیادوں پر تربیت کرنی ہے او ران میں ریاستی مفادات کی اہمیت سمیت تنقید اور تضحیک کے پہلو کے فرق کو نمایاں کرنا او ران کو ریاستی نظام میں جوڑے رکھنے سے جڑا ہوا ہے۔

ان کو یہ باور کروانا ہوگا کہ نفرت انگیزی پر مبنی یہ سوچ اور فکر محض ان کے لیے ہی نہیں بلکہ ملکی سلامتی کے لیے بھی نقصان کا سبب بن سکتا ہے ۔بنیادی طو رپر یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ اب سوشل میڈیا ابلاغ کی دنیا میں ایک نئی سیاسی حقیقت او رطاقت بن گئی ہے ۔ اس سوشل میڈیا کی دنیا کو نظرانداز کرنا او ر اسے طاقت کی بنیاد پر کمزور یا بند کرنا مسئلہ کا حل نہیں۔ آج جو ففتھ جنریشن وار یا ہائبرڈ دار دنیا میں ایک بڑے خطرناک ہتھیار کی بنیاد پر کھیلی جارہی ہے اس کا موثر ہتھیار سوشل میڈیا کی دنیا ہے ۔

ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس قوم میں سیاسی تقسیم کی جڑیں کافی گہری ہوگئی ہیں اور سیاسی ومذہبی جماعتوں سمیت ان کی قیادت نے محاذ آرائی کو بنیاد بنا کر جو سیاسی ایجنڈا قومی سیاست پر غالب کیا ہے، اس نے بھی سیاسی تقسیم کو بدنما بنادیا ہے۔

ہم اختلاف رائے یا دوسری سوچ یا نقطہ نظر کو تسلیم کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے ساتھ سیاسی دشمنی، شدت پسندی، انتہا پسندی اور ملک دشمنی کی بنیادپر اپنی رائے کو قائم بھی کرتے ہیں اور اسے اپنے سیاسی مقصد کے لیے بطور ہتھیار پھیلاتے بھی ہیں۔سیاسی قیادت اپنے سیاسی مقصد کے حصول کے لیے ریاستی اداروں کو بھی اپنی حمایت اور مخالفت کے طو رپر استعمال کرکے ملک میں ایک ہیجانی کیفیت کو پیدا کرتے ہیں۔

یہ کھیل اسی صورت میں ممکن ہوتا ہے جب ہمارے سامنے ریاستی یا ملکی مفاد کے مقابلے میں اپنا ذاتی یا جماعتی مفاد اہم ہوتا ہے۔سیاسی جماعتوں اوران کی قیادت نے اپنی اپنی سیاسی جماعتوں اور کارکنوں کی سطح پر کوئی ایسی تربیت کا نظام نہ اپنے لیے اور نہ ہی کارکنوں کے لیے قائم کیا ہوتا ہے ۔ بدقسمتی سے سیاسی قیادتیں اپنے ہی سیاسی کارکنوں میں جذباتیت کی بنیاد پر ایسی سوچ اورفکر کو پیدا کرتی ہیں جو ان کے ذاتی کھیل کو فائدہ پہنچانے کا سبب بنتا ہے ۔

قوم کو تقسیم کرنے کا سوشل میڈیا کی مدد سے جاری کھیل میں سیاسی کارکن ہی نہیں بلکہ پڑھے لکھے مختلف طبقات او ربڑے بڑے سرکردہ نام بھی نمایاں نظر آتے ہیں ۔اس بڑے چیلنج یا خطرہ سے نمٹنے کے لیے انتظامی کے ساتھ ساتھ علمی او رفکری محاذ پر بھی ایک ٹھوس جامع حکمت عملی درکار ہے ۔

بشکریہ ایکسپرس