مختلف قومیں اور مختلف مذاہب شروع سے ہی اپنے تہوار بھرپور طریقے سے مناتے آرہے ہیں جن کی تاریخ بھی ملتی ہے لیکن 14 فروری کا تہوار جس کو اب ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے جانا جاتا ہے اسکی تاریخ بہت کھوکھلی سی ہے اور اس کے متعلق مختلف روایات چلی آرہی ہیں اہل مغرب اس دن کو اظہار محبت یا بے چین دلوں کے قرار جیسے گرد آلود القابات کے نام سے مناتی ہے دراصل اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کے مغربی معاشرہ خاندان کے ادارے سے باہر نکل چکا ہے جس کی وجہ سے وہ ایسے دنوں سے خود کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اسکے برعکس ہمارے معاشرے میں فیملی سسٹم ہے جس کی وجہ سے ہمارے گھروں میں ہر وقت بچوں کے قہقہے بڑوں کی سمجھداری والی باتوں کی گونج سنائی دیتی ہے
جس کی وجہ سے ہم دلی سکون میں رہتے ہیں مغرب میں ایسا کچھ بھی نہیں جس کی وجہ سے وہ خوشی کے بہانے ڈھونڈتے ہیں اور خود ساختہ تہوار مناتے ہیں تاکے انکو وقتی خوشی محسوس ہوسکے لیکن ہمیں ایسی خوشیاں ہروقت میسر ہوتی ہیں جسکی وجہ سے ہماری تہزیب میں ایسی خوشیوں کے دن بہت کم ہیں اسلام میں خوشیوں کے تہوار عیدین ہیں اور ہم انکا آغاز بھی سجدے سے کرتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کے ہماری خوشیوں کی وجہ ہمارا رب ہی ہے اور ہم سجدے میں جھک کر یہ بتاتے ہیں
کے ہم نے اپنے نفس کو اپنے قابو میں رکھا ہوا ہے جب کے دوسری طرف ویلنٹائن ڈے کی تاریخ میں جائیں تو ایسے شرمناک حقائق ہمارے سامنے ہیں کے مجھ میں ہمت نہیں کے انکو اپنے کالم کی زینت بناوں اس دن کے متعلق جو سب سے پہلی روایت سامنے آتی ہے وہ روم میں قبل مسیح کی ہے اس کے مطابق اہل روم 15 فروری کو Feast of the wolf نام سے جشن مناتے تھے اس جشن میں ایک برتن میں لڑکوں کے نام اور دوسرے برتن میں لڑکیوں کے نام ڈالے جاتے تھے پھر ایک ایک پرچی دونوں برتنوں سے اٹھائی جاتی تھی اور وہ جس لڑکے اور لڑکی کا نام آتا تھا وہ ایک دوسرے کو تحائف دیتے تھے اور جنسی تعلق قائم کرتے تھے لیکن بعد میں جب روم میں جب عیسائیت عروج پر آئی تو انہوں نے اس تہوار کو اپنے عقیدے میں رنگنے کی کوشش کی اور 14 فروری کے دن کا انتخاب کیا کیونکہ اس دن رومیوں نے عیسائی پادری ویلنٹائن کو پھانسی دی تھی بقول تاریخ رومیوں کے مشہور زمانہ بادشاہ.claudius 2کو اپنی فوج میں نوجوان فوجیوں کی تعداد کو کم ہوتا دیکھ کر یہ فیصلہ کیا کے شادیوں پر پابندی لگائی جائے کیونکہ شادی شدہ فوجی دیگر ممالک میں جنگ لڑنے نہیں جاتے اس پابندی کی وجہ سے عیسائیوں کے پادری سینٹ ویلنٹائن نے چھپ کر شادیاں کروانے کا سلسلہ شروع کردیا
جب یہ راز فاش ہوا تو بادشاہ نے اسکو گرفتار کروا کے جیل میں بند کردیا اور بعذ روایات کے مطابق اس کو قتل کردیا گیا جس کی وجہ سے یہ دن اسی کی یاد میں منایا جاتا ہے اور اس دن کا نام ویلنٹائن رکھ دیا گیا اور کچھ دیگر روایات کے مطابق 14 فروری کو سینٹ ویلنٹائن نے روزہ رکھا اور لوگوں نے اس کو محبت کا دیوتا مان کر یہ دن منانا شروع کردیا تھا اب آتے ہیں کے اس دن کو ہم اب کیسے مناتے ہیں چند سال قبل تک کی بات ہے 14 فروری کا دن بھی عام دنوں کی طرح آتا تھا اور چپکے سے گزر جاتا تھا نہ کوئی اس دن کی اہمیت سے آشنا تھا اور نہ ہی کوئی ویلنٹائن کو جانتا تھا یہاں تک کے عوام کپویڈ کے کارناموں سے بھی آگاہ نہیں تھی موجود دور کی طرح نہ کوئی ہنگامہ ہوتا تھا اور نہ ہی کوئی دل آویز واقعہ سننے کو ملتا تھا پچھلے کچھ سالوں سے نہ جانے پاکستان میں بھی یہ وبا پہنچ چکی ہے جس کی بدولت ویلنٹائن ڈے کو بھرپور طریقے سے منایا جارہا ہے جب سے مغربی تہذیب نے پاکستان کا رخ کیا ہے تو بے حیائی کا سیلاب امڈ آیا ہے فروری کے آتے ہی منچلے 14 فروری کی تیاریوں میں مصروف ہوجاتے ہیں
ہماری اخلاقی پستی کا مقام اس حد تک گر چکا ہے کے ٹی وی پر باقاعدہ پروگرام اس کی حمایت میں سننے کو ملتے ہیں جس کے نتیجے میں نسل نو مقصد حیات سے بے پرواہ ہوکر بے ہودگی کے وہ کھیل کھیلتی ہے کے شیطان بھی شرمندہ ہوتا نظر آتا ہے پہلے ویلنٹائن ڈے کی وبا اپر کلاس(جن کو ہم امیر طبقہ کہتے ہیں) طبقے میں بھی تھی لیکن اب یہ پھوٹ پھوٹ کر ہر کلاس میں پھیل چکی ہے جس کی وجہ سے نوجوان اس دن کو انتظار ایسے کررہے ہوتے ہیں جیسے گدھ کسی جانور کے مرنے کا اگر پاکستان میں اس دن کو منانے کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ زیادہ گھمبیر یا لمبی چوڑی نہیں ہے 14 فروری 2004 میں پاکستان کے ایک روزنامے میں باقاعدہ اشتہار شائع ہوا تھا جس میں یہ تحریر درج تھی کے. زندہ دل عاشقوں کیلئے ویلنٹائن ڈے کا خاص پروگرام 14 فروری کی رات محفل رقص منعقد ہورہی ہے خواہش مند جوڑا اس محفل میں 1999روپے کا ڈنر ٹکٹ خرید کر شرکت کرے یہ ویلنٹائن ڈے کا پہلا باقاعدہ اشتہار تھا اس کے بعد تو کیا ٹی وی چینل اور کیا اخبارات اس دن کی تشہیر ایسے کرتے نظر آتے ہیں جیسے یہ دن بھی عید کا ہو اس کے ثمرات بھی اسوقت سامنے آئے جب لاہور ایک مشہور زمانہ کالج کے طالبعلموں نے ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے بیہودہ فوٹو شوٹ کروایا اور بڑے جزبے کیساتھ کہا کے ہم ویلنٹائن ڈے منائیں گے پھولوں کے تحفے دیں گے کسی کو اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے اقبال کے شاہین جب ایسی باتیں بغیر کوئی عار محسوس کرتے ہوئے کہیں گے تو قوم کے مستقبل کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہوگا ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے اور ان میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات مغربی تہذیب کی دلدل میں ایسے پھنس چکے ہیں کہ ان میں سوچنے سمجھنے کا شعور ختم ہوچکا ہے
کیمرج اور آکسفورڈ کے طلباء کی تقلید میں ہر وہ کام کرتے ہیں جس میں بے حیائی و بے شرمی کا عنصر ہوتا ہے ویلنٹائن ڈے کا بھی یہی حساب ہے کہ ہم نے یورپ کی نقالی ہے تو اس دن کو بڑی ڈھٹائی سے منانا ہے اور اس پر کوئی پشیمانی بھی نہیں محسوس کرنی ندامت تو دور کی بات ہے مغربی کلچر کو اوڑھنے کے چکر میں ہماری نوجوان نسل آباو اجداد سے نا آشنائی کا یہ عالم ہے کے نوجوانوں کی اکثریت کو عشرہ مبشر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے نام تک نہیں یاد لیکن ہالی وڈ کی کسی بھی فلم یا فنکار کے بارے میں پوچھ لیا جائے جو اسکا مکمل بائیو ڈیٹا پتا ہوگا اب تو یہ عالم ہوچکا ہے کے ہم اپنے اسلامی تہوار (عیدین) وغیرہ بھی مغربی کلچر کے مطابق مناتے ہیں اور اگر اس پر روکا جائے تو اکثریت یہی جواب دیتی ہے کے ہم ایشین ٹائیگر بن کر دنیا میں ظہور چاہتے ہیں حالانکہ کے کسی دوسری قوم کا کلچر اپنانا ترقی کی نہیں بلکے تنزلی کی علامت سمجھا جاتا ہے میں کسی کو ویلنٹائن ڈے منانے سے روک تو نہیں سکتا لیکن کچھ حوالے دیکر فیصلہ پڑھنے والوں پر چھوڑوں گا پہلا حوالہ تو یہ ہے کہ مختلف یورپی ممالک میں اس دن کو منانے پر پابندی ہے دوسرا حوالہ یہ ہے کہ ہندو مذہب نے اس دن کو اپنے کلچر پر حملہ قرار دیا ہے ہمیں سوچنا چاہیے کے ایک غیر مسلم مذہب دوسرے غیر مسلم مذہب کے تہوار کو خطرہ قرار دے رہا ہے جس کی وجہ سے ہمیں خود شرمندگی ہونی چاہیے کے ہمارا معاشرہ کس طرف جارہا ہے آخر پر ایک حدیث کا مفہوم بیان کرکے قلم کی روانی کو تھام لوں گا. جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرے گا روز محشر انہی میں سے اٹھایا جائے گا